نگاہوں کے تقاضے چین سے مرنے نہیں دیتے

نگاہوں کے تقاضے چین سے مرنے نہیں دیتے
یہاں منظر ہی ایسے ہیں کہ دل بھرنے نہیں دیتے


یہ لوگ اوروں کے دکھ جینے نکل آئے ہیں سڑکوں پر
اگر اپنا ہی غم ہوتا تو یوں دھرنے نہیں دیتے


یہی قطرہ جو دم اپنا دکھانے پر اتر آتے
سمندر ایسی من مانی تجھے کرنے نہیں دیتے


قلم میں تو اٹھا کے جانے کب کا رکھ چکا ہوتا
مگر تم ہو کے قصہ مختصر کرنے نہیں دیتے


ہمیں ان سے امیدیں آسماں چھونے کی کرتے ہیں
ہمیں بچوں کو اپنے فیصلے کرنے نہیں دیتے