نگاہ مہر سے دیکھو نہ غم زدہ دل کو

نگاہ مہر سے دیکھو نہ غم زدہ دل کو
بناؤ اور نہ مشکل ہماری مشکل کو


زمانہ قتل ہوا اور وہ رہی پیاسی
گلا ہے ابروئے قاتل سے تیغ قاتل کو


مرے خیال نے خلوت کو کر دیا محفل
تری نگاہ نے خلوت بنایا محفل کو


نہ جانے دل کا تجھے کچھ خیال ہے کہ نہیں
ترا خیال تو وجہ نشاط ہے دل کو


نشان منزل مقصود پا ہی جائے گا
وہ رہ نورد کہ مدفن بنا دے منزل کو


جلا دے برق جو حاصل سے ہے یہی حاصل
کہ خوف برق سے حاصل نہ ہو سکوں دل کو


کہاں سے آئی یہ حیرت نگاہ بیخودؔ میں
کہ اس کو دیکھ کے سکتہ ہے اہل محفل کو