نیوزی لینڈ: اڑھائی لاکھ بچوں کے ساتھ ہوئی زیادتیوں کا ذمہ دار کون ہے؟
نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈن کے مطابق یہ ان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے، بلکہ سیاہ ترین۔ ان کا یہ بیان نیوزی لینڈ میں سرکاری سرپرستی میں قائم گرجا گھروں میں بچوں ، نابالغوں اور کمزور افراد کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کی ایک رپورٹ مرتب ہونے پر سامنے آیا ہے ۔ اس رپورٹ میں ایک اندازے کے مطابق 1950 ء سے اب تک کم و بیش اڑھائی لاکھ بچوں یا دیگر افراد کو کسی نہ کسی انداز سے بد سلوکی اور زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ۔ زیادتی کی زیادہ تر صورتیں جنسی زیادتی کی ہیں۔
اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد نیوزی لینڈ کے کیتھولک چرچ نے اعتراف کیا ہے کہ 1950 سے اب تک 14 فیصد پادریوں پر بدسلوکی کا الزام لگایا گیا ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ 1950 سے لے کر اب تک 1,350 بچوں اور 164 بالغوں نے بدسلوکی کا شکار ہونے کی اطلاع دی ہے، جن کی عمریں 7 سے 16 سال کی ہیں ۔ 1,680 میں سے تقریباً نصف (835) ایسی رپورٹیں تھیں جن میں کسی بچے کے خلاف جنسی ہراسانی یا زیادتی کا الزام لگایا گیا تھا اور تمام رپورٹس میں سے 80% بچوں سے متعلق تھیں۔
رپورٹ کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات کی درج شدہ شکایات اصل واقعات کے دس فیصد سے بھی کم ہیں۔ اندازے کے مطابق زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں کی تعداد اڑھائی لاکھ سے متجاوز ہے لیکن درج ہونے والی شکایات بہت ہی کم ہیں اور ان سے اس معاملے کی سنگینی کا بھی اندازہ نہیں ہوتا۔ چرچ کے اپنے بیان کے مطابق چودہ فیصد پادریوں کے خلاف اس طرح کی شکایات آنے کا مطلب یہ ہے کہ اصل تعداد ان شکایات سے کہیں زیادہ ہے جو رپورٹ ہوئی ہیں۔ چرچ کے بیان میں ایک انکشاف یہ بھی کیا گیا ہے کہ نہ صرف مرد پادریوں کے خلاف جنسی زیادتی کی شکایات موصول ہوئی ہیں بلکہ 3 فیصد خواتین راہباؤں کے خلاف بھی ایسی شکایات ملی ہیں جن میں انہوں نے چھوٹے یا نابالغ بچوں کو اپنے جنسی ہوس کا نشانہ بنایا یا بنانے کی کوشش کی تھی۔ چرچ کا مزید کہنا ہے کہ تمام شکایات میں سے 75 فیصد شکایات 1990 سے پہلے کی ہیں۔ اس کے بعد درج ہونے والی شکایات کی تعداد بہت کم ہے۔
یہ تما م اعداد و شمار ایک سرکاری کمیشن کی طرف سے جاری کیے گئے ہیں جسے 2018 میں وزیر اعظم جیسنڈا نے قائم کیا تھا۔ کمیشن نے ملک بھر میں قائم کم و بیش ایک ہزار سے زیادہ کیتھولک چرچوں یا ان کے ذیلی اداروں سے ریکارڈ حاصل کیا اور اس کے نتیجے میں مندرجہ بالا اعداد و شمار جاری کیے۔ معلومات جمع کرنے کا منصوبہ ایک بڑی مشق تھی جس میں دو سالوں کے دوران درجنوں افراد شامل تھے، اس کے ساتھ ساتھ سینکڑوں جگہوں پر 70 سال پرانی کاغذی فائلوں تک کو تلاش کیا گیا۔
اس موقع پر ایسے لوگوں سے بھی ملاقاتیں کی گئیں جنھوں نے پادریوں کی بدسلوکی کی رپورٹس درج کروائیں تھیں ۔ ان میں سے کئی لوگوں کا کہنا تھا کہ ان زیادتیوں میں کئی بچے جان سے بھی گئے ہیں ۔ بد سلوکی کا شکار ہونے والوں میں زندہ بچ جانے والوں نے اپنا ایک نیٹ ورک بنا رکھا ہے اور وہ مزید لوگوں سے بھی اس میں شامل ہونے یا اپنے ساتھ ہوئی زیادتی کو رپورٹ کرنے کا کہتے ہیں۔ اس نیٹ ورک کے رہنماؤں یا نمائندوں نے رپورٹ کے مندرجات کو درست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واقعات یقیناً ہوتے رہے ہیں لیکن اس سے پیشتر انہیں چھپایا جاتا رہا ہے۔