نیورولنک کی چِپ اور ماہرین کے تاثرات
ایلان مسک اپنی ہائی پروفائل کمپنیوں جیسے ٹیسلا اور اسپیس ایکس کی وجہ سے شہرت دوام رکھتے ہیں۔ نیورولنک، مسک کی نیورل انٹرفیس ٹیکنالوجی کمپنی ہے۔ یہ کمپنی ایک ایسی چپ بنا رہی ہے جو کہ کسی بھی انسان کے دماغ میں لگائی جا سکتی ہے اور پھر وہ محض سوچ کے ذریعے ہی کمپیوٹر اور دیگر ڈیجٹل پروسز وغیرہ کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ یہ چِپ دماغ کی سرگرمی کو ریکارڈ کر سکتی ہے اور ممکنہ طور پر اس کی کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ بھی کر سکتی ہے۔
ایلان مسک کی نیورولنک اس وقت دو قسم کے پراجیکٹس پر کام کر رہی ہے۔ سب سے پہلے ایک چِپ ہے جو کسی شخص کی کھوپڑی میں لگائی جائے گی۔ یہ چِپ ایک سکے کے سائز کی ہے جس سے تقریباً انسانی بال سےبیس گنا باریک تاروں کا جال نکلتا ہے دماغ کے نیورونز سے جڑ سکے گا۔
تاروں کا یہ جال ایک ہزار چوبیس الیکٹروڈز سے لیس ہے جو دماغی سرگرمی کو مانیٹر کرنے اور برقی طور پر دماغ کو متحرک کرنے کے قابل ہیں۔ چِپ کے ذریعے دماغ کی سرگرمی کا ڈیٹا کمپیوٹر پر وائرلیس کے طور پر منتقل کیا جا سکے گا جہاں محققین اس کا مطالعہ کر سکیں گے۔
دوسرا پروجیکٹ جس پر نیورولنک کام کر رہی ہے، ایک ایسے روبوٹ کی تیاری ہے جو خود بخود انسانی کھوپڑی میں چپ نسب کر سکے گا۔ مسک نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ مشین نیورولنک کے الیکٹروڈز لگانے کو آنکھوں کی سرجری کی طرح آسان بنا سکتی ہے۔ اگرچہ یہ ایک غیر معمولی دعویٰ ہے لیکن کچھ نیورو سائنسدانوں نے 2019 میں بتایا تھا کہ مشین میں واقعی زبردست خصوصیات ہیں۔ جیسا کہ پروفیسر اینڈرو نے ایک خصوصیت کی نشان دہی کرتے ہوئے بتایا کہ مشین یا روبوٹ، سرجری کے دوران چپ کی تاروں کو ایک سوئی کی مدد سے دماغ کے ساتھ منسلک کرتی ہے ۔بالکل جیسے کپڑے میں ٹانکا لگایا جاتا ہے۔ اس دوران دماغ کے کچھ اعضا ہارٹ بیٹ کی وجہ سے مسلسل حرکت میں رہتے ہیں۔ مشین بڑی مہارت سے سوئی کو حرکت کرتے اعضا کے مطابق ایڈجسٹ کر لیتی ہے۔
2020 میں ، کمپنی نے براہ راست ڈیمو کے دوران گرٹروڈ نامی خنزیرمیں کام کرنے والی اپنی ایک چپ دکھائی۔جس میں دکھایا گیا کہ جب گرٹروڈ ٹریڈمل پر چل رہی تھی تو چپ اس کے اعضاء کی پوزیشننگ کا درست اندازہ لگا رہی تھی۔ ساتھ ہی جب خنزیر کھانے کے لیے سونگھتا تھا تو اعصابی سرگرمی بھی چپ ریکارڈ کرتی تھی۔ مسک نے کہا کہ خنزیر دو مہینوں سے اپنی کھوپڑی میں چپ کے ساتھ رہ رہا ہے۔
اس مظاہرے پر ، نیورل انٹرفیس کے ماہر پروفیسر اینڈریو جیکسن نے کہا ، " نیورل انٹرفیس ٹیکنالوجی کے لحاظ سے 1024 چینلز کی چپ میں موجودگی اتنی متاثر کن نہیں ، لیکن انھیں وائرلیس طریقے سے ریلے کرنے کے لیے الیکٹرانکس جدید ترین ہیں ، اور روبوٹک امپلانٹیشن اچھا ہے۔" نیو کیسل یونیورسٹی میں
انہوں نے کہا کہ یہ ٹھوس انجینئرنگ ہے لیکن معمولی نیورو سائنس ہے۔
جیکسن نے 2020 کی پریزنٹیشن کے بعد بزنس انسائیڈر کو بتایا کہ نیورو لنک چپ سے وائرلیس ریلے ممکنہ طور پر سائنس میں ایسے جانور جن پر تجربات کیے جا رہے ہوں کی فلاح و بہبود پر بڑا اثر ڈال سکتا ہے ، کیونکہ ٹیسٹڈ جانوروں میں فی الحال استعمال ہونے والے زیادہ تر نیورل انٹرفیس میں ایسی تاریں لگائی جاتی ہیں جو جانور کی جلد سے باہر نکل رہی ہوتی ہیں۔ باقی نیورولنک کی ٹیکنالوجی اس سے زیادہ کچھ نہیں کرتی جو ہم اس وقت کر سکتے ہیں – چاہے وہ چینلز کی تعداد کے لحاظ سے ہو یا ریکارڈنگ کے لحاظ سے۔ میرے خیال میں اگر آپ کسی ایسی چیز کے ساتھ تجربات کر سکتے ہیں جس میں تاریں جانور کی جلد سے باہر نہیں نکلتیں، تو یہ جانوروں کی فلاح و بہبود کو بہتر بنانے والا ہے۔
ایلان مسک کی کمپنی اپریل 2021 میں اپنے جانوروں کے مظاہروں کے ضمن میں ایک قدم آگے بڑھی ، جب اس نے ایک بندر کو اپنے دماغ سے ویڈیو گیم کھیلتے ہوئے دکھایا۔
نیورولنک نے پیجر نامی ایک بندر کی ویڈیو جاری کی جس میں وہ کیلے کے انعامات والی ویڈیو گیم کھیل رہا ہے۔
پیجر نے گیمز کو ایک جوائس اسٹک کا استعمال کرتے ہوئے کھیلا جو گیم سے منقطع تھا ، اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے دماغ کے اشاروں کا استعمال کرتے ہوئے کرسر کو کنٹرول کر رہا تھا ۔ ایلون مسک نے 2019 کے پریزنٹیشن میں جوش و خروش سے اعلان کیا کہ کمپنی نے کامیابی کے ساتھ اپنی چپ ایک بندر میں لگائی ہے۔ انہوں نے کہا ، "ایک بندر اپنے دماغ کے ساتھ کمپیوٹر کو کنٹرول کرنے میں کامیاب رہا ہے۔" نیورولنک کے صدر ہوڈک نے مسک کے اس دعویٰ پر حیران ہوتے ہوئے کہا : "مجھے نہیں معلوم تھا کہ ہم آج اس نتیجہ کو دکھا رہے ہیں ۔"
بحرحال، مسک نے اگلے سال ویڈیو مظاہرے سے دو ماہ قبل فروری 2021 میں دعوے کو دوبارہ دہرایا۔
آج سے دو سال قبل2019 میں بزنس انسائیڈر سے بات کرتے ہوئے نیورو سائنسدانوں نے کہا کہ اگرچہ یہ دعوے قارئین کی توجہ حاصل کر سکتے ہیں، لیکن انہیں یہ حیرت انگیز یا خاص طور پر متاثر کن نہیں لگے۔
"بندر انٹرنیٹ پر سرفنگ نہیں کر رہا ہے۔ بندر شاید ایک ہدف حاصل کرنے کی کوشش میں ایک چھوٹی سی گیند کو حرکت دینے کے لیے ایک کرسر کو صرف حرکت دے رہا ہے ۔" یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے نیورو بائیولوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر ، اینڈریو ہائرز نے 2019 میں کہا۔
دماغ کے ساتھ نیورل انٹرفیس جوڑ کر سوچ کے ذریعے سکرین پر ہونے والے عوامل کو کنٹرول کرنے کے تجربات پہلے ہی کیے جا چکے ہیں۔ یونیورسٹی آف نیو کاسل کے پروفیسر اینڈریو جیکسن نے اپریل 2021 میں انسائیڈر کو بتایا کہ محققین نے پہلی بار 2002 میں اس قسم کی ٹیکنالوجی کا آغاز کیا - لیکن اس کے تانے بانے 1960 کی دہائی تک جاتے ہیں۔
اگرچہ نیورلنک میں سے کوئی بھی ٹیکنالوجی اب تک خاص طور پر نمایاں نہیں رہی ہے ، لیکن نیورو سائنسدان اس سے متاثر ہیں کہ یہ موجودہ ٹیکنالوجیز کو کسی حد تک جمع کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
بقول ڈاکٹر جیسن شیفرڈ ،جو بھی ٹیکنالوجی انہوں نے دکھائی وہ پہلے ہی کسی نہ کسی شکل میں تیار ہوچکی ہے ، بنیادی طور پر جو کچھ انہوں نے کیا ہے وہ اسے صرف ایک چھوٹی سی شکل میں پیکیج کرتا ہے جو پھر وائرلیس طور پر ڈیٹا بھیجتا ہے۔ یوٹاہ یونیورسٹی میں نیورو بائیولوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر نے 2020 کے مظاہرے کے بعد انسائیڈر کو بتایا۔
"اگر آپ نے صرف اس پریزنٹیشن کو دیکھا ہے تو آپ کو لگتا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی اچانک کہیں سے آ گئی ہے اور مسک اس کے ذریعے جادو کر رہا ہے ، لیکن حقیقت میں ، اس نے بہت سی لیبز سے بہت سارے کام کاپی اور پیسٹ کیے ہیں جو اس پر پہلے ہی کام کر رہے ہیں ، "
حاصل کلام:
ایلان مسک کی نیورو لنک کے مظاہرے دیکھ کر اور ماہرین کے تاثرات پڑھ کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ گو کہ نیورل انٹرفیس کی پیش کردہ مسک کی جانب سے ٹیکنالوجی نئی نہیں ہے لیکن مسک نے اسے دماغ میں انتہائی عمدگی سے نسب کرنے کی مہارت ضرور وضع کر لی ہے۔ آئیندہ کچھ عرصے تک مسک اس ٹیکنالوجی کو فالج سے متاثرہ مریضوں کے دماغ میں انپلانٹ کرنے کا تجربہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس کے بعد متاثرہ شخص اپنے کمپیوٹر اور موبائل کو اپنی سوچ کی مدد سے کنٹرول کر سکے گا۔ یہ واقعی ایک غیر معمولی ٹیکنالوجی بننے جا رہی ہے۔ ہمیں اس بات کو اب فوری یقینی بنانا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی غلط استعمال نہ ہونے پائے۔
(ایزابیل اشر ہملٹن کے آرٹیکل کا اردو ترجمہ )