نظروں سے غبار چھٹ گئے ہیں
نظروں سے غبار چھٹ گئے ہیں
چہروں سے نقاب الٹ گئے ہیں
فرقت کے طویل راستے تھے
یادوں سے تری سمٹ گئے ہیں
جس رہ پہ پڑے ہیں تیرے سائے
اس راہ سے ہم لپٹ گئے ہیں
دن کیسے کٹھن تھے زندگی کے
کیا جانیے کیسے کٹ گئے ہیں
تقسیم ہوئے تھے کچھ نصیبے
کیا کہیے کہاں پہ بٹ گئے ہیں
ابھرے تھے بھنور سے کچھ سفینے
کیا جانے کہاں الٹ گئے ہیں