نظریں ہٹیں ذرا سی کہ صحبت بگڑ گئی
نظریں ہٹیں ذرا سی کہ صحبت بگڑ گئی
رہ کر کبوتروں میں میری چھت بگڑ گئی
اک روز اس نے شوق میں سوتی پہن لیا
ریشم کی تو بازار میں قیمت بگڑ گئی
ہم نے ہی تو ہر بار چنے ایسے حکمراں
کس منہ سے کہیں ہم کہ سیاست بگڑ گئی
اک تخت ایک تاج و دس بیس اشرفیاں
اتنے میں ہی حضور کی نیت بگڑ گئی
اتنے بڑے ہیں گھاگھ سیاست کے سورما
ان کو سدھارنے میں عدالت بگڑ گئی