نذر ٹیگور

کیا نغمہ ہائے کیف کا دریا بہا گیا
خود حسن کو جہاں میں حسیں تر بنا گیا


اے شاعر شباب و نوا سنج زندگی
مثل بہار آ کے تو عالم پے چھا گیا


تو حسن کی نگاہ تھا اور عشق کی زباں
گیتوں میں رنگ و روپ کی دنیا بسا گیا


رنگینیاں بہار کی ہر سو بکھر گئی
بے کیفیٔ خزاں کا کبھی رنگ چھا گیا


ٹوٹے ہوئے دلوں کی صدا لب پہ آ گئی
نغمہ کبھی تو کیف و مسرت کا گا گیا


انساں کے غم میں سینۂ قدرت بھی شق ہوا
ماں کی طرح سے موت کو بھی پیار آ گیا


افسردہ زندگی کو ملی تجھ سے تازگی
جو دل تڑپ رہا تھا وہ آرام پا گیا


تو کر کے سر بلند وطن کے وقار کو
دل میں ہر ایک فرد وطن کے سما گیا


ہندوستاں کو دے کے دو عالم کی عظمتیں
تو بے نوا فقیر سا گاتا چلا گیا