نذر اقبال

جہاں میں مثل علی اپنا نام پیدا کر
''دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر''


سبق یہ سیکھ علی کی خموشیوں سے ذرا
''سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر''


علی وہ ہے جو غریبی میں بھی امیر رہا
''خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر''


محبتوں کے بہت جام تو نے بخشے ہیں
فروغ عشق علی کا بھی جام پیدا کر


تو شہر علم کے در کا فقیر ہے تو عدیلؔ
''نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر''