نذر احمد فرازؔ

پھر رسم زمانے کی نبھانے کے لئے آ
مل کر کے گلے عید منانے کے لئے آ


سر تال نئے پھر سے ملانے کے لئے آ
ڈھولک پہ ذرا تھاپ لگانے کے لئے آ


جو زخم جدائی کے دیئے ان پہ مری جاں
سستا سا ہی مرہم تو لگانے کے لئے آ


پلوں نے ترے ناک میں دم میری کیا ہے
بوتل کا سہی دودھ پلانے کے لئے آ


بن تیرے کہاں ختم ہو رشوت کی کمائی
گل چھرے مرے ساتھ اڑانے کے لئے آ


بکھری ہے تری زلف سی ہر چیز ہی گھر پر
اک اک کو ٹھکانے سے سجانے کے لئے آ


سیدھا نہ کہیں کر دے ہمیں بے جا اکڑ یہ
خود جھکنے کو اور مجھ کو جھکانے کے لئے آ


تو نے بھی مرے ہجر میں جو شعر کہے ہیں
بے خوف پھٹے سر میں سنانے کے لئے آ


مقطع ہے تو ہی رازؔ کی اس تازہ غزل کا
اس بار جو آئے تو نہ جانے کے لئے آ