نظم کیا ہے؟
اس سوال کا مدعا یہ معلوم کرنا نہیں ہے کہ وہ چیز کیا ہے جسے نظم (یعنی منظوم کلام) کہتے ہیں۔ یعنی اس سوال کا مقصد یہ نہیں ہے کہ نظم کی وجودیات (Ontology) سے بحث کی جائے۔ نظم با معنی ہوتی ہے کہ نہیں ؟ نظم کے معنی اس کے اندر ہوتے ہیں یا باہر؟ نظم کے موضوع کو اس کے معنی کہہ سکتے ہیں کہ نہیں؟ نظم کے ذریعہ ہمیں علم حاصل ہوتا ہے یا تجربہ؟ اگر تجربہ، تو اس تجربے کو کسی طرح کا علم (یعنی ایسی معلومات جس کی روشنی میں عام احکامات لگائے جا سکیں) کیوں نہیں کہہ سکتے؟ اگر نہیں، تو کیا نظم میں جو کچھ بیان ہوتا ہے اس کا سچ ہونا بھی ضروری نہیں؟ اور اگر نہیں تو پھر نظم کے صحیح پن (Validity) کے لیے ہمارے پاس کیا دلائل ہیں ؟ پھر نظم میں جو بات بیان ہوتی ہے کیا وہ بات اور نظم کا لفظی بیان ایک ہی حکم رکھتے ہیں؟ وغیرہ۔
ان سوالات کا تعلق صرف نظم سے نہیں بلکہ پوری شاعری سے ہے۔ ان کے برخلاف سوال ’’نظم کیا ہے‘‘ کے ذریعے میں چند مباحث ایسے چھیڑنا چاہتا ہوں جن کا تعلق صرف اس صنف سخن سے ہے جس کو ہم اردو والے ’’نظم‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی میری بحث ’’نظم‘‘ نامی صنف سخن کی شکلیات (Morphology) اور شناسیات (Taxonomy) سے ہوگی۔
میں یہ مان کر چلتا ہوں کہ بعض بنیادی باتوں پر ہم سب کا اتفاق ہے۔ مثلاً ہم سب تسلیم کرتے ہیں کہ اقبال کا’’مرثیۂ داغ‘‘ مرثیہ ہے اور نظم بھی ہے۔ لیکن یہ اس طرح کا مرثیہ نہیں ہے جس طرح کا مرثیہ مثلاً میر انیس لکھتے تھے۔ جس سوال کے جواب پر ہمارا اتفاق شاید نہ ہو، وہ یہ ہے کہ اگر ’’مرثیۂ داغ‘‘ از اقبال، اور’’درد سے میرے ہے تجھ کو بےقراری ہائے ہائے‘‘ از غالب دونوں مرثیے ہیں تو کیا یہ دونوں ایک ہی طرح کی نظم بھی ہیں یا نہیں؟ اس طرح اس سوال کے جواب پر بھی اتفاق شاید نہ ہو کہ اقبال کا ’’مرثیۂ داغ‘‘ مرثیہ ہے اور نظم بھی ہے، تو کیا میر انیس کے مرثیے بھی نظم ہیں؟ اسی طرح ہم سب تسلیم کرتے ہیں کہ سنائی کے اتباع میں لکھی ہوئی اقبال کی تخلیق (سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا) نظم ہے۔
لیکن جس سوال کے جواب پر اتفاق شاید نہ ہو، وہ یہ ہے کہ اگر یہ نظم سنائی کے قصیدے کے طرز پر لکھی گئی ہے تو اسے قصیدہ کیوں نہ کہا جائے؟ اور اگر ترکی، ایرانی طرز پر ایک طویل طنزیہ شہر آشوب لکھ کر سودا نے اسے ’’قصیدہ درتضحیک روزگار‘‘ کا نام دے دیا تو کیا یہ ضروری ہے کہ ہم بھی اس کو قصیدہ کہیں؟ یا اگر فرض کیجیے کہ ہم اسے قصیدہ نہ کہیں، شہرآشوب کہیں، تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ شہر آشوب نظم ہے اور قصیدہ نظم نہیں ہے، صرف قصیدہ ہے؟
لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ آیا کسی تحریر کی قسمیات (Typology) کا دارومدار شاعر کے عندیے پر ہے؟ یعنی اگر سودا نے اپنی ایک منظوم تحریر کو قصیدے کا نام دیا تو کیا ہم بھی اسے قصیدہ کہنے پر مجبور ہیں؟ اور اگر اقبال نے اپنی ایک منظوم تحریر کو قصیدے کا نام نہیں دیا تو کیا ہم بھی اس بات پر مجبور ہیں کہ ہم اس کو قصیدہ نہ کہیں، چاہے اس تحریر میں قصیدے کے معروف عناصر موجود ہوں؟
اگر ایسا ہے تو ہم اس بات پر مجبور ہیں کہ اقبال کی چار مصرعے والی ان اردو فارسی نظموں کو جو مفاعیلن مفاعیلن فعولن کے وزن پر ہیں، رباعی کہیں، کیونکہ اقبال نے انہیں رباعی ہی کہا ہے۔ اسی طرح ہم اس بات پر بھی مجبور ہیں کہ حالی کے مرثیۂ دہلی کو شہرآشوب نہ کہیں بلکہ غزل کہیں کیونکہ انہوں نے اسے شہرآشوب کا عنوان نہیں دیا ہے اور یہ منظومہ ان کے کلیات غزلیات میں درج ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ شاعر کو اپنے کلام کی قسمیات متعین کرنے کا کچھ حق تو ہوتا ہے، لیکن اسے اس قدر حق ہم نہیں دے سکتے کہ وہ مروج یا مقبول اقسا م کو من مانے ناموں سے پکارے اور ہر بار ہمیں اس درد سر میں مبتلا ہونا پڑے کہ اگر اقسام کا تعین شاعر ہی کرتا ہے تو اقسام کی ضرور ت کیا ہے؟ جس شاعر کا جو جی چاہے کرے، اپنی ایک تخلیق کو قصیدہ کہے اور اسی طرح کی دوسری تخلیق کو مثنوی کہے، تیسری کو غزل کہہ دے۔
لیکن یہاں یہ مشکل ہے کہ ہر قسم کے شعر کے ساتھ مختلف طرح کی توقعات وابستہ ہو گئی ہیں اور قاری ان توقعات کی روشنی میں ہی ہر تخلیق کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔ احتشام صاحب مرحوم نے اپنی ایک یاس آلودغزل کو اسی لیے ’’بہ یاد ویت نام‘‘ کا عنوان دے دیا تھا کہ قاری اسے ان توقعات کی روشنی میں نہ پڑھے جو غزل کے ساتھ وابستہ ہیں اور جن کی روشنی میں وہ تخلیق غیر ترقی پسند ٹھہر سکتی تھی۔
اقسام شعر کے ساتھ جو توقعات وابستہ ہو گئی ہیں ان کی بنیاد کچھ تو خود ان اقسام پر ہے اور کچھ ان اقسام کی وضاحت کرنے والوں پر۔ یعنی جب بے ربط لیکن ہم قافیہ اشعار پر مشتمل ایسی بہت سی تحریریں سامنے آئیں جن میں حسن وعشق کا تذکرہ تھا اور ان کو غزل کا نام دیا جاتا رہا، تو ہم نے یہ توقع وابستہ کرلی کہ غزل وہ تحریر ہے جس میں عشقیہ مضامین والے ہم قافیہ لیکن بے ربط اشعار ہوتے ہیں۔ دوسری طرف فارسی اقسام شعر کی وضاحت کرنے والوں نے بعض بلند آہنگ، تعریفی یا تنقیصی یا اخلاقی مربوط اشعار والی نسبتاً طویل تحریروں کو قصیدے کا نام دے دیا، حالانکہ عربی میں (جہاں سے یہ لفظ اور اصطلاح ماخوذ ہے) قصیدہ نا م کی کوئی صنف سخن ہے ہی نہیں۔ لیکن چونکہ اقسام شعر پر لکھنے والوں نے ایک خاص طرح کی نظموں کو قصیدہ کہہ دیا، اس لیے لفظ قصیدہ سے ایک خاص طرح کی توقعات وابستہ ہو گئیں۔
مشکل تب پیدا ہوتی ہے جب شاعر، یا اقسام شعر پر لکھنے والا کوئی شخص، کسی رائج قسم شعر پر وہ توقعات عائد کرنا چاہتا ہے جو اس سے اب تک وابستہ نہ تھیں۔ اگر وہ توقعات پچھلی رائج توقعات سے بالکل متغائر ہوں تو انتشار اور افراتفری اور غلط فہمی پیدا ہوتی ہے اور اگر وہ توقعات پچھلی رائج توقعات سے کسی نہ کسی طرح کی ہم آہنگی رکھتی ہوں تو آہستہ آہستہ نئی توقعات رائج ہو جاتی ہیں۔
کلیم الدین صاحب نے غزل پر وہ توقعات عائد کرنا چاہیں جو پچھلی رائج توقعات سے بالکل متغائر تھیں اور چونکہ کلیم الدین صاحب نے اپنی بات بڑے حتمی انداز میں، اور مغربی ادب کے حوالوں سے کہی اور ان کے زمانے میں مغربی (بلکہ انگریزی) ادب کے اصول بڑے مقدس اور محترم تھے، اس لیے کلیم الدین صاحب کی بات سے غیر معمولی انتشار پیدا ہوا اور اس کے اثرات اب تک باقی ہیں۔ اس معنی میں کہ لوگ اب تک یہ کوشش کرتے ہیں کہ کلیم الدین صاحب کا لگایا ہوا الزام غلط ثابت ہو جائے او رغزل میں اس ربط وانتظام کا وجود ثابت کیا جائے جو کلیم الدین صاحب کے بقول نظم کی شاعری (یعنی بڑی شاعری) کا خاصہ ہے۔
ہماری منفعل ذہنیت کو اپنی گناہگاری کا اس درجہ یقین تھا کہ ہم لوگوں نے یہ بھی غور نہ کیا کہ کیا مغربی ادب میں نظم کا واقعی وہی تصور ہے جو کلیم الدین صاحب بیان کر رہے ہیں؟ واقعہ یہ ہے کہ مغربی ادب میں نظم کا کوئی ایک تصور نہیں ہے، ہو بھی نہیں سکتا۔ اور وہ تصور جسے کلیم الدین صاحب نے حتمی کلیے کے طور پر بڑے شدومد سے پیش کیا، مغرب میں نظم کا بنیادی تصور نہیں ہے، لیکن کلیم الدین صاحب کے سامنے صف آرا ہونے والوں نے اس سے بڑی غلطی یہ کی کہ انہوں نے یہ فرض کر لیا کہ اقسام شعر کے بارے میں ہمارے تصورات صرف اس لیے غلط اور خام اور غیرترقی یافتہ ہیں کہ مغرب میں ان کی نظیر نہیں ملتی۔
ان نکات پر تفصیلی بحث بعد میں ہوگی۔ فی الحال شروع والی باتوں کا سلسلہ پھر قائم کرتے ہوئے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں یہ فرض کر رہا ہوں کہ (۱) غزل، قصیدہ، مرثیہ، مثنوی وغیرہ میں عام طور پر فرق کرنا ممکن ہے۔ اختلاف ان باتوں پر ہو سکتا ہے کہ انیس کے مرثیے نظم ہیں کہ نہیں، سودا کا شہرآشوب قصیدہ ہے کہ نظم ہے۔ سنائی کے اتباع میں اقبال کی نظم قصیدہ ہے کہ نہیں؟ اختلاف اس بات پر بھی ہو سکتا ہے کہ قصیدہ، مرثیہ، مثنوی وغیرہ نظم ہیں کہ نہیں ؟ (۲) شاعر کو تھوڑا بہت حق ہے کہ وہ اپنی تخلیق کی قسمیات متعین کرے لیکن اس کوپورا پورا حق نہیں ہے۔ کیونکہ قسمیات کی بنیادی شرط وہ توقعات ہوتی ہیں جو ہر قسم کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں (۳) اگر ہم کسی قسم کے شعر کے اوپر کسی نئی طرح کی توقع عائد کرنا چاہیں تو ان کے نتیجے میں انتشار ممکن ہے۔
اب میں فی الحال یہ اصول قائم کرتا ہوں، ہر وہ منظوم تحریر جو غزل نہیں ہے وہ نظم ہے۔ یہاں میں نثری نظم کو بھی منظوم تحریر کی نوع میں رکھ رہا ہوں اور اگر کوئی ڈراما منظوم ہے یا اس کے کچھ حصے منظوم ہیں تو ان منظوم حصوں کی حد تک وہ ڈراما بھی نظم ہے۔ دوسرا اصول یہ ہو سکتا ہے کہ نظم وہ منظوم تحریر ہے جو غزل، قصیدہ، مرثیہ، مثنوی، رباعی، قطعہ، واسوخت، شہر آشوب، مسمط، ترکیب بند، ترجیع بند، مستزاد نہ ہو۔ یعنی نظم وہ منظوم تحریر ہے جس پر ان اقسام میں سے کسی ایک کا بھی حکم نہ لگایا جا سکے جو ہمارے یہاں عہد قدیم سے رائج ہیں۔ اگر یہ سوال ہو کہ ایسا ہے تو پھر محمدقلی قطب شاہ اور میرونظیر کی ان تحریروں کا کیا بنےگا جنہیں موضوع کی بنا پر نظم کہتے آئے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان تمام شعرا کی کوئی منظوم تحریر ایسی نہیں ہے جسے مندرجہ بالا کسی بھی نوع (Category) میں نہ رکھا جا سکے۔
مسمط، ترکیب بند، ترجیع بند ایسی انواع ہیں جن میں ہر وہ چیز آ سکتی ہے جو مثنوی، غزل، قصیدہ یا رباعی نہ ہو۔ پرانے زمانے کے لوگ اپنی اس طرح کی تحریروں کی پہچان اسی طرح کرتے بھی تھے۔ مثلاً میر کا’’مخمس درہجو شہر کاما‘‘ یاجرأت کا ’’مخمس شہر آشوب درہجو نوشاعراں‘‘ وغیرہ ہے۔ لیکن اس تعریف میں مشکل یہ ہے کہ بہت سا ایسا کلام، جسے ہم مسدس، ترکیب بند، مثنوی وغیرہ نہیں کہنا چاہتے، بلکہ نظم کہنا چاہتے ہیں، نظم کے دائرے سے خارج ہو جائےگا۔ مثلاً کون ہے جو ’’ذوق وشوق‘‘ کو ترکیب بند اور ’’گورستان شاہی‘‘ کو مثنوی کہنا پسند کرے؟
اس میں دوسری مشکل یہ ہے کہ ہم اقسام شعر کی تعداد غیرضروری طور پر بڑھانے پر مجبور ہو جائیں گے اور بات پھر بھی مکمل نہ ہوگی۔ چار مصرعے والے بندوں پر مشتمل تحریر کو مربع اور پانچ مصرعے والے بندوں پر مشتمل تحریر کو مخمس، چھ والی کو مسدس، سات والی کو مسبع کہیے اور پندرہ والی کو کوئی اور نام دیجیے، بارہ والی کو کوئی اور نام دیجیے۔ ان سب کو ملا کر مسمط کہا جا سکتا ہے، لیکن مسمط محض ایک لیبل ہے، اس سے کچھ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ نظم کے بند کتنے مصرعوں پر مشتمل ہیں۔
پھر نئے اصناف کو کیا کریں گے؟ مثلاً دوہے کو کیا کہیں گے؟ مثنوی کہہ نہیں سکتے۔ مثنوی کا شعر یا غزل کا مطلع کہہ سکتے ہیں۔ لیکن مثنوی کا شعر یا غزل کامطلع صنف سخن تو ہوتے نہیں لہٰذا دوہے کو نظم ہی کہنا ہوگا۔ گیت بھی نظم کہلائے گا۔ سانیٹ اور ہائیکو کو ہم نظم کہتے ہی ہیں۔ یعنی ہر نئی آنے والی ہیئت یا صنف شعر نظم کہلائےگی۔ لیکن پھر اس تعریف میں (یعنی نظم وہ منظوم تحریر ہے جو غزل، قصیدہ، مسمط وغیرہ نہ ہو) اور پہلی تعریف میں (یعنی ہر وہ منظوم تحریر جو غزل نہیں ہے، وہ نظم ہے) کوئی خاص فرق نہیں رہ جاتا۔ کیونکہ قصیدہ، مثنوی، مستزاد تقریباً از کار رفتہ ہو چکے ہیں اور’’گورستان شاہی‘‘ جیسی تحریروں کو ہم مثنوی کہنا نہیں چاہتے۔
لہٰذا یہ تفریق بے معنی ہو جاتی ہے کہ صاحب وہ منظومات جو ان انواع کے خانے میں نہیں آتیں، جو ہمارے یہاں پہلے سے مروج ہیں، نظم ہیں۔ باقی سب کے الگ الگ نام ہیں یعنی مخمس، مسدس، قصیدہ، مثنوی وغیرہ۔ کیونکہ مخمس، مسدس، قصیدہ، مثنوی وغیرہ کو تو ہم پہلے ہی ترک کر چکے ہیں، یہاں تک کہ حالی کا ’’مسدس‘‘ بھی اپنے نام کے باوجود نظم ہی کہا جاتا ہے، لہٰذا وہ تفریق جس پر ہم خود عمل پیرا نہ ہوں، ہمارے کسی کام کی نہیں۔
ایک بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ نظم کی بعض خاص صفات ہوتی ہیں، جن منظومات میں وہ صفات ہوں گی، ہم انہیں نظم کہیں گے۔ عام اس سے کہ وہ کس ہیئت میں ہیں یا ان کو کس رائج یا قدیم نوع میں رکھا جا سکتا ہے۔ مثلاً ’’گورستان شاہی‘‘ مثنوی کی ہیئت میں ہے، لیکن ہمیں وہ نظم معلوم ہوتی ہے اور اقبال کا’’ساقی نامہ‘‘ مثنوی کی ہیئت میں بھی ہے اور مثنوی کی صفات بھی رکھتا ہے۔ اسی طرح اقبال کا مرثیۂ داغ اگرچہ مرثیہ ہے لیکن نظم کی صفات رکھتا ہے اور غالب کا ’’درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے‘‘ اگرچہ مرثیہ ہے لیکن غزل کی صفات رکھتا ہے، اس لیے ہم اسے غزل کہیں گے۔
یہ جواب بظاہر بہت بااصول معلوم ہوتا ہے لیکن اس میں بہت سے خطرات پنہاں ہیں۔ بالکل سامنے کی بات لیجئے۔ وہ کون سے صفات ہیں جنہیں ہم نظم کی صفات کہتے ہیں اور جن کی بنا پر ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ اور’’گورستان شاہی‘‘ مثنوی کی ہیئت میں ہوتے ہوئے بھی نظم ہیں اور ’’ساقی نامہ‘‘ کو ان صفات سے خالی ہونے کی بنا پر ہم مثنوی کہتے ہیں؟ اس کا جواب کلیم الدین صاحب سے مانگئے تو مایوسی ہوگی کیونکہ کلیم الدین صاحب کے خیال میں نظم مربوط خیالات کا مجموعہ ہوتی ہے اور ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ ، ’’گورستان شاہی‘‘ اور ’’ساقی نامہ‘‘ تینوں ہی مربوط خیالات کا مجموعہ ہیں۔ اس کا جواب مولوی عبدالرحمن اینڈ کمپنی سے مانگئے توبھی مایوسی ہوگی۔ کیونکہ وہ آپ کو بتائیں گے کہ مثنوی کے لیے بعض بحریں مخصوص ہیں اور ’’گورستان شاہی‘‘ اور’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ بحر رمل مثمن محذوف میں لکھی گئی ہیں اور یہ بحر ان بحروں میں نہیں ہے جو مثنوی کے لیے مخصوص ہیں۔
یہ جواب اس لیے غلط ہے کہ مثنوی کے لیے کوئی بحر مخصوص نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اکثر مثنویاں آٹھ بحروں میں سے کسی ایک میں لکھی گئی ہیں لیکن میر سے لے کر شوق قدوائی تک (بلکہ حفیظ جالندھری تک) ایسے شعرا موجود ہیں جنہوں نے آٹھ بحروں کے باہر بھی مثنوی لکھی ہیں۔ اگریہ کہا جائے کہ مثنوی میں ایک خاص طوالت ہوتی ہے، تو سوال یہ ہوگا کہ کتنی طوالت؟ جمیل مظہری کی ’’آب وسراب‘‘ میں چار سو شعر ہیں، لیکن ہم سب اسے مثنوی کہتے ہیں او ر اقبال کی زیر بحث نظموں میں اشعار کی تعداد حسب ذیل ہے، ’’ گورستان شاہی‘‘ ۵۸، ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ ۸۶، ’’ساقی نامہ‘‘ ۹۹۔ لہٰذا ’’ساقی نامہ‘‘ اور ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ تقریباً ایک سی طوالت کی حامل ہیں۔ میرکی’’مثنوی درمذمت دنیا‘‘ میں ۵۰شعر ہیں اور ’’خواب وخیال میر‘‘ میں ۱۴۰۔ لہٰذا اقبال کی زیر بحث نظمیں بھی مثنوی کی صفت طوالت سے متصف ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ ’’ساقی نامہ‘‘ کی فضاقدیمی اور مثنویانہ ہے اور ’’گورستان شاہی‘‘ اور’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کی فضا جدید اور غیرمثنویانہ ہے تو میں یہ سوال نہ اٹھاؤں گا کہ جدید اور غیر مثنویانہ فضا سے آپ کی کیا مراد ہے؟ میں یہ بھی نہ پوچھوں گا کہ خاقانی کے قصیدے ’’ہاں اے دل عبرت بیں از دیدہ نظر کن ہاں‘‘ ، جس کی فضا اس قدر جدید ہے کہ فراق صاحب نے بھی اس کی نقل کی ہے اور سنائی کے قصیدے ’’مکن درجسم وجاں منزل کہ ایں دونست وآں والا‘‘ ، جس کا اتباع اقبال نے کیا ہے، ان کی فضا کی جدیدیت کے پیش نظر اب ان کو بھی نظم کیوں نہیں کہہ دیتے؟ آپ کہہ سکتے ہیں کہ فضا کی جدیدیت ایسی صفت نہیں جس کو ہم واضح الفاظ میں بیان کر سکیں، اسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔
میں یہ بات بھی ماننے کو تیار ہوں لیکن آپ کا مسئلہ پھر وہیں کا وہیں رہ جاتا ہے کہ جس فضاکی بنیاد پر آپ ایک مثنوی کو نظم اور دوسری مثنوی کو غیر نظم قرار دے رہے ہیں، اس کا تعین مختلف زمانوں میں کون کرےگا؟ اور یہ ذمہ داری کون لےگا کہ تمام شعری سرمائے کو ان کی ’’عمومی فضا‘‘ کے اعتبار سے پرکھ کر فیصلہ کرے کہ سودا کے فلاں فلاں منظومات تو قصیدے ہیں، فلاں شہر آشوب ہیں اور فلاں فلاں نظم ہیں۔ پھر ایسی تفریق جس میں نوع (Category) اور جنسClass) کے درمیان فرق نہ ہو سکے، نہ عملی طور پر ہمارے کام کی ہے، نہ نظری طور پر۔
میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں کہ اگر ہم دو انواع کے درمیان فرق کو پوری طرح واضح اور ثابت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایسا فرق موجود ہی نہیں ہے۔ جان سرل (John Searle) نے یہ بات (Deconstructionist) نظریات پر بحث میں بعض نئے مسائل کی ضمن میں کہی ہے، لیکن چونکہ اس معاملے کا تعلق تمام اصناف سخن اور فلسفۂ لسان سے ہے، اس لیے اس کا ایک مختصر اقتباس درج کرتا ہوں،
’’ادب پر نظریاتی بحث کرنے والوں میں بہت سے لوگ اس بات کو نظرانداز کر دیتے ہیں کہ افسانے کے کسی نظریے کا یہ کوئی بنیادی عیب نہیں ہے کہ وہ افسانہ اور غیرافسانہ کے درمیان کوئی واضح فرق نہیں قائم کرتا، یا استعارے کے بارے میں کسی نظریے کا یہ کوئی بنیادی عیب نہیں ہے کہ وہ استعاراتی اور غیراستعاراتی بیان کا فرق صفائی سے نہیں بیان کر سکتا۔ کسی غیر قطعی وقوعہ Phenomenon کے بارے میں کسی نظریے کے درست اور غیرمبہم ہونے کی شرط ہی یہ ہے کہ وہ اس وقوعہ کو صاف صاف انداز میں غیر قطعی بنائے۔۔۔ (اسی طرح یہ خیال بھی غلط ہے کہ) وہ تصورات جن کا اطلاق ادیب اور زبان پر کیا جائے، ان کے صحیح پن کی شرط یہ ہے کہ کسی مشینی طریقے سے ان کی تصدیق بھی ہو سکے۔‘‘
مجھے ایسا لگتا ہے کہ سرل کے ان خیالات سے واقفیت کے بغیر ہی اردو کے بیشتر نقاد حضرات اپنی غیرقطعی، مبہم اور نام نہاد وجدانی رایوں میں سرل کا اتباع کرتے رہے ہیں۔ لیکن وجدانی اور ذوقی احساس اور فیصلہ (جس پر زور دینے کی بدعت ہمارے یہاں شبلی سے شروع ہوئی) اسی وقت کارگر ہوتا ہے جب اس کی پشت پناہی پر منطقی فکر اور معروضی چھان بین بھی ہو۔ صر ف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ نظم میں نظمیت ہوتی ہے اور مثنوی میں مثنوی پن ہوتا ہے۔ ابھی حال میں ایک رسالے میں تبصرہ نگار نے لکھا کہ غالب میں غالبیت ہے اور میر میں میریت ہے اور یہی ان دونوں کا بین فرق سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ عملی دنیا اس سے کچھ زیادہ کا تقاضہ کرتی ہے اور ابھی یہ بات بہرحال ثابت نہیں ہو سکی ہے کہ وہ منظومہ جو قصیدہ ہے اور وہ جو قصیدہ نہیں ہے لیکن اسی ہیئت وطرز میں ہے، ان میں کوئی ایسافرق ہوتا ہی ہے جس کی بنا پر ہم ایک کو قصیدہ اور ایک کو نظم کہہ سکیں۔
یہ بات ضرور ہے کہ قصیدہ چونکہ ایک تاریخی چوکھٹے میں جکڑی ہوئی (Fixed) اصطلاح ہے، اس لیے بعض منظومات (مثلاً اقبال کا اتباع سنائی) کو قصیدہ کہنا ان کی معنویت کو ایک مخصوص اور کبھی کبھی غلط سمت دے سکتا ہے۔ اس کے برخلاف قصیدے کو نظم کہنے میں کوئی مشکل یا قباحت نہیں۔ کیونکہ نظم Neutral اصطلاح ہے اور اس کے استعمال سے فن پارے کے معنی کو کسی تاریخی فریم میں جکڑ جانے کا خطرہ نہیں رہتا۔ غالب کا مطلع ہے،
جادۂ رہ خور کو وقت شام ہے تار شعاع
چرخ وا کرتا ہے ماہ نو سے آغوش ووداع
اس پر طباطبائی نے کہا ہے کہ اس مضمون میں کچھ غزلیت نہیں ہے۔ قصیدے کا مطلع تو ہو سکتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ طباطبائی کے خیال میں قصیدے کی تشبیب کو براہ راست غزل نہیں فرض کر سکتے۔ یعنی قصیدے میں ایک قصیدہ پن ہوتا ہے جو تشبیب میں بھی نمایاں ہوتا ہے۔ اس خیال سے اختلاف ممکن ہے لیکن کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ نظم میں کوئی نظم پن بھی ہوتا ہے جو نظم کو قصیدہ، مثنوی، کربلائی مرثیے وغیرہ سے الگ کرتا ہے؟ میرا کہناہے کہ قصیدہ اور غزل جیسی واضح فرق رکھنے والی اصناف میں بھی’’غزلیت‘‘ اور ’’قصیدہ پن‘‘ کی بنا پر تفریق قائم کرنا مشکل ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو غالب نے یہ مطلع دیوان غزلیات میں نہ رکھا ہوتا اور حالی نے اپنا شہرآشوب غزلوں میں نہ شامل کیا ہوتا۔
مثلاً ہم کہتے ہیں کہ قصیدے میں پرشکوہ الفاظ وغیرہ ہوتے ہیں۔ لیکن محسن کاکوروی کے قصیدے ان نام نہاد پر شکوہ الفاظ سے خالی ہیں۔ مثلاً ہم کہتے ہیں غزل میں ہلکے اور سادہ الفاظ ہوتے ہیں لیکن ولی اور ناسخ اور غالب اور اقبال کی صدہا غزلیں ان نام نہاد ہلکے اور سادہ الفاظ سے خالی ہیں۔ دراصل غزل اور قصیدے کا فرق موضوع کی طرف شاعر کے رویے پر قائم ہے۔ اعلیٰ درجے کی غزل میں تہ داری اور معنی کی فراوانی اور خیال کی پیچیدگی بھی ہوتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ صفات ہر غزل کے ہر شعر میں ہوتی ہیں۔ ہاں موضوع اور اس کی طرف شاعرکا رویہ، یہ ایسی چیزیں ہیں جو تمام غزل میں مشترک ہیں۔
میرا معروضہ یہ ہے کہ نظم اور قصیدہ اور مرثیہ وغیرہ میں کوئی داخلی فرق نہیں ہے جیسا کہ غزل اور غیر غزل (مثلاً غزل اور قصیدہ) میں ہے۔ اس کے برخلاف غزل کے علاوہ تمام دوسری اصناف سخن میں یہ بات مشترک ہے کہ ان کے اشعار میں کسی نہ کسی طرح کا ربط، یا ربط کا التباس ہوتا ہے۔ لہٰذا چونکہ غزل اور دیگر اصناف سخن کے درمیان داخلی اور خارجی دونوں طرح کے بین فرق ہیں اور بہت سے فرق ہیں اور اس کے برخلاف غیر غزلیہ اصناف سخن میں طرح طرح کے داخلی اور خارجی نقطہ ہائے اشتراک ہیں۔ اس لیے ہر وہ منظومہ جو غزل نہیں ہے وہ قصیدہ ہے یا قطعہ ہے اور قطعے میں بھی عام طور پر فرق طوالت کی بنا پر تھا۔ عربی شعریات میں قصیدے کی حیثیت پر ظفر احمد صدیقی نے بہت عمدہ بحث کی ہے، لہٰذا میں تفصیل کو نظرانداز کرتا ہوں۔
غزل کے علاوہ تمام اصناف سخن کو نظم قرار دینے میں جو فائدے ہیں ان میں سے بعض کی طرف اشارہ میں کر ہی چکا ہوں۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہماری قسمیات Typology انتشار سے بچ جائےگی۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ ہم قصیدہ، مثنوی، مرثیہ، رباعی وغیرہ اصطلاحوں کو منسوخ کر دیں۔ نہیں، بلکہ یہ اصطلاحیں ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں اور انہیں قائم رہنا چاہیے۔ میرا مطلب صرف یہ ہے کہ غزل کے مقابل تمام اصناف کو ہم نظم قرار دیں اور جب ہم نظم کی تعریف متعین کرنے کی کوشش کریں تو ان تمام اصناف کو نظر میں رکھیں۔
لیکن اگر ہم قصیدہ، مرثیہ وغیرہ کی بھی روشنی میں نظم کی تعریف بنانے بیٹھیں گے تو کلیم الدین صاحب کی بتائی ہوئی تعریف کا کیا ہوگا؟ وہ کہہ سکتے ہیں اور وہ یہ کہنے میں حق بجانب بھی ہوں گے، کہ آ پ کی تعریف سے میری تعریف منسوخ نہیں ہوتی۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ نظم کی ایک تعریف آپ نے بھی بنائی ہے۔ لیکن میری تعریف کی روشنی میں غزل پر یہ الزام قائم رہتا ہے کہ وہ ایک خام اور غیر ترقی یافتہ صنف سخن ہے۔ کیونکہ اس میں نظم کی وہ صفات نہیں ہیں جو بڑی شاعری کی ضامن ہیں۔ لہٰذا اس الجھن کو سلجھانے کا بہتر طریقہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کلیم الدین صاحب کے خیالات سے بحث کی جائے۔
اس سلسلے میں سب سے بنیادی اور ہر وقت یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ انگریزی لفظPoem یا فرانسیسی لفظPoeme کا اردو ترجمہ ’’نظم‘‘ اس صنف سخن کے معنی میں نہیں ہے جسے ہم ’’نظم‘‘ کہتے ہیں اور جو غزل سے مختلف چیز ہے اور صنف سخن کی حیثیت سے اپنا مقام رکھتی ہے۔ انگریزی لفظ Poem یا فرانسیسی لفظ Poeme کا صحیح ترجمہ ’’منظومہ‘‘ ہوگا۔ یعنی وہ تحریر جس میں غزل، نظم، رباعی وغیرہ سب شامل ہے یعنی مغربی نقاد جب Poeme یا Poem کہتا ہے تو اس میں غزل بھی شامل ہوتی ہے۔ لہٰذا ان لفظوں کا ترجمہ ’’نظم‘‘ اس لفظ کے اصلی معنوں میں ہے، یعنی’’وہ تحریر جو نثر نہیں ہے۔‘‘ ان لفظوں کا ترجمہ ’’نظم‘‘ کرنے سے ہم لوگوں کو یہ نقصان ہوا، بلکہ یہ دھوکا ہوا کہ ہم لوگوں نے سمجھا کہ Poem میں غزل شامل نہیں ہے اور اگر کوئی مغربی شخص غزل سے دوچار ہوگا تو اس کو Poem نہ سمجھے گا (ملاحظہ ہو کلیم الدین صاحب کا تمثیلی مضمون، ایک مغربی سیاح کے خطوط)
لہٰذا ہم لوگوں نے گمان کیا کہ Poem کی جو تعریف ہم نے مغرب میں دیکھی ہے، اگر اس کا اطلاق غزل پر نہ ہو سکے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ غزل ایک ناقص اور خام چیز ہے۔ ہم لوگ یہ بھول گئے کہ مغربی قاری جب غزل سے دوچار ہوتا ہے تو وہ اس کو بھی Poem کہتا ہے، یہ او ر بات ہے کہ وہ غزل کی جمالیات کو شاید فوری طور پر نہ سمجھ سکے۔ ہم لوگ یہ بھی بھول گئے کہ چونکہ مغری شعریات کے ارتقائی دور میں مغربی زبانوں میں غزل نہیں تھی، اس لیے اس شعریات میں غزل کے لیے پوری گنجائش واضح طور پر نہ بن سکی۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں، کیونکہ عربی میں ڈراما نہ ہونے کی وجہ سے ابن رشد جیسا فلسفی اور ارسطو کا عاشق زار ارسطو کی’’شعریات‘‘ (Poetics) کو سمجھنے سے قاصر رہا۔ اس کے برخلاف مغرب جو بڑے پیمانے پر غزل سے آشنا ہوا تو جرمن زبان میں Ghasel نامی صنف سخن وجود میں آ گئی۔ اقبال کے دیباچے ’’پیام مشرق‘‘ ہی کا مطالعہ اس حقیقت کو آشکار کرنے کے لیے کافی وشافی ہے۔
لہٰذا بنیادی بات یہ ہے کہ لفظ Poem کے مفہوم میں غزل کا مفہوم شامل ہے، اور مغربی تنقید میں جو تصورات لفظ Poem کے ساتھ وابستہ ہیں، ان میں اکثر کم وبیش اطلاق غزل پر ہو سکتا ہے۔ بہرحال کلیم الدین صاحب اور ان کی تقلید میں ہمارے بہت سے نقادوں کا خیال یہ ہے کہ نظم (۱) مربوط خیالات کا مجموعہ ہوتی ہے یا (۲) اگر اس میں ایک ہی خیال بیان کیا گیا ہو تو اس بیان میں آغاز، ترقی اور انتہا کی کیفیت ہوگی۔ کلیم الدین صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ ربط اور تسلسل ترقی یافتہ ذہن کی پہچان ہیں، لہٰذا جس اظہار میں ربط اور تسلسل نہ ہوگا وہ غیرترقی یافتہ ذہن کی تخلیق ہوگا۔
نظم کے لیے جو دو شرطیں مغربی تصورات کے حوالے سے بیان کی گئیں، ان پر کئی طرح کے اعتراض عائد ہو سکتے ہیں۔ پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ یہ شرطیں مغربی شعریات میں قطعیت اور وضاحت سے کبھی بیان نہیں ہوئیں۔ لہٰذا یہ دعویٰ غلط ہے کہ یہ شرائط مغربی اصول نقد میں بنیادی اور لازمی حیثیت رکھتی ہیں۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ یہ شرطیں ان نظموں کے لئے بےکار ہیں، جن میں محض ایک تاثر، محض ایک جذبہ یا محض ایک کیفیت بیان کی گئی ہو۔ ظاہر ہے کہ خود مغربی ادب میں ایسی ان گنت نظمیں ہیں جن میں کوئی خیال نہیں ہے، محض ایک جذبہ، ایک کیفیت، ایک منظر یا ایک تاثر بیان ہوا ہے۔ تیسرا اعتراض یہ ہے کہ یہ شرائط ان نظموں کے لیے بھی بے کار ہیں جن میں ایک ہی خیال یا ایک ہی تاثر بار بار بیان کیا گیا ہو۔ ایسی نظموں کو Paratactic کہا جاتا ہے اور ان کی تعداد بھی مغربی ادب میں بہت کثیر ہے۔
چوتھا اعتراض یہ ہے کہ نظم کے خیال میں آغاز، ترقی اور انتہا کی شرط دراصل ارسطوئی ہے اور ڈرامے کے لیے وضع کی گئی تھی اور بعد میں خود ڈراما میں یہ ترک ہو گئی یا اگر ترک نہیں ہوئی تو اس کی مطلقیت (Absoluteness) کو معرض سوال میں لایا گیا۔ لہٰذا اس شرط کو نظم پر عائد کرنا ارسطو اور شعریات دونوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ پانچواں اعتراض یہ ہے کہ یہ دونوں شرائط جن اصولوں کی روشنی میں وضع کئے گئے ہیں وہ اگر ہیں بھی تو سراسر مغرب مرکوز (Westocentric) ہیں، یعنی ان کو غیرمغربی شاعری سے کوئی علاقہ نہیں۔ اگر اردو فارسی عربی شاعری غیر مہذب اور غیرترقی یافتہ ذہن کی پیداوار ہے بھی، تو چینی جاپانی اور سنسکرت شاعری تو غیرمہذب ذہن یا غیرنفیس تہذیبوں کی پیداوار نہیں ہے۔
ہم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ سنسکرت میں Epigrammatic شاعری کی کثرت ہے۔ اس میں کوئی مقولہ، کوئی خیال، کوئی تاثر، کوئی رائے، محض چند لفظوں میں نچوڑ کر رکھ دی جاتی ہے۔ یہ شاعری نہ مربوط خیالات کا مجموعہ ہوتی ہے اور نہ کسی خیال کو آغاز، ترقی اور انتہا کے منازل سے گزارتی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جاپانی شاعری کا بڑا حصہ محض اشاروں پر مبنی نظموں پر مشتمل ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ چینی نظموں میں اس طرح کا ربط مفقود ہوتا ہے جس کا ہم تقاضا کر رہے ہیں۔ لہٰذا ممکن ہے انیسویں صدی کی انگریزی شاعری کے چند نمونوں پر ان شرائط کا اطلاق ہو سکے، لیکن دنیا انیسویں صدی کے انگلستان سے بہت بڑی ہے۔ چھٹا اعتراض یہ ہے کہ یہ شرائط غیرمنطقی ہیں، کیونکہ ’’باربط خیالات‘‘ کی اصطلاح مبہم ہے۔
اگر ہر طرح کا ربط، ربط کا حکم رکھتا ہے تو ربط کی شرط ہی مہمل ہے۔ کیونکہ لوگوں نے تو لوئیس کیرل (Lewis Carroll) کیAlice in Wonderland میں بھی طرح طرح کے ربط ڈھونڈ لیے ہیں۔ تازہ ترین ’’تحقیق‘‘ تو یہ ہے کہ یہ کتاب دراصل ملکہ وکٹوریہ کی خفیہ ڈائری ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وکٹوریہ کی خفیہ ڈائری والی نام نہاد تحقیق کو ہم مطائبہ سمجھتے ہیں لیکن Alice in Wonderland کی نفسیاتی توجیہات تو خاصی اہمیت رکھتی ہیں۔ دوسری طرف، تشریح اور تفہیم کو آزاد اور خود مکتفی عمل قرار دینے والے نقادوں نے ایک ہی فن پارے کی کیسی کیسی متغائر توجیہات پیش کی ہیں۔ اس کی مثال ان دنوں مغربی تنقید میں نظر آتی ہے۔ وہاں آج کل یہ مباحثہ بہت گرم ہے کہ کیا تشریح وتفہیم کو شاعر کے عندیے کا پابند ہونا چاہیے، یا اسے آزاد ہونا چاہیے۔
اسے آزاد قرار دینے والی جماعت کے ایک سرگرم رکن رابرٹ کراس مین Robert Crossman نے اپنے مضمون (۱۹۸۰) میں ثابت کرنا چاہا ہے کہ ازرا پاؤنڈ کی مشہور نظم In a Station of the Metro دراصل اس بات کی ترغیب دیتی ہے کہ لوگوں کو دودھ مکھن خوب استعمال کرنا چاہیے۔ نظم کا کام چلاؤ ترجمہ آپ بھی سن لیجیے،
زمین دوزریل کے ایک اسٹیشن میں
ازدحام میں ان چہروں کے موہوم آسیبی وجود
ایک سیاہ، نم شاخ پر پنکھڑیاں
اصل نظم حسب ذیل ہے،
In a Station of the Metro
The apparition of these faces in the crowd
Petals on a wet, blad bough
رابرٹ کراس مین نے مختلف طرح کے ربط تلاش کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ نظم مکھن کے کثیر استعمال کی ترغیب دیتی ہے۔ اس طرح کے تجزیوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ محض’’ربط‘‘ کی شرط نہ صرف یہ کہ ناکافی ہے، بلکہ مہمل بھی ہے۔ ضروری ہے کہ ربط کی نوعیت کو بھی واضح اور متعین کیا جائے۔ کلیم الدین صاحب اور ان کے مقلدوں نے ربط کے تصور کو عمومی اور مشینی طور پر استعمال کرکے اس کی معنویت مجروح کر دیا ہے۔ اسی طرح خیال کے آغاز، ترقی اور انتہا سے کیا مراد ہے؟
ارسطو نے تو پلاٹ کے تعلق سے آغاز، وسط اور انجام کی بات کی تھی اور کہا تھا کہ آغاز وہ ہے جس کے پہلے کچھ واقع نہ ہوا ہو، وسط وہ ہے جس کے پہلے بھی کچھ ہوا ہو اور بعد میں بھی کچھ ہو، اور انجام وہ ہے جس کے بعد کچھ واقع نہ ہو۔ کیا آغاز، وسط اور انجام کی یہ تعریفیں نظم کے حوالے سے آغاز، ترقی اور انتہا پر منطبق ہو سکتی ہیں؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ نظم کا آغاز اور اختتام تو ہو سکتا ہے اور اس اختتام کے طریقوں سے تفصیلی بحثیں بھی ہوئی ہیں۔ لیکن نظم کی انتہا کہاں ہے اور انتہا کے بعد زوال کیوں نہیں ہے۔ ان سوالوں کے جواب کلیم الدین اسکول کے پاس نہیں ہیں۔
اوپر میں نے پہلا اعتراض یہ بیان کیا تھا کہ ربط وتسلسل اور آغاز اور ارتقائے خیال کی یہ شرطیں مغربی شعریات میں وضاحت سے کبھی بیان نہیں ہوئیں۔ اب میں مزید یہ کہتا ہوں کہ ان سے مختلف شرطیں ضرور بیان ہوئی ہیں۔ ملارمے اور والیری کے خیالات سے ہم سب واقف ہیں کہ چیزوں کو بیان کرنے کے بجائے ان کی طرف بس اشارہ کر دینا کافی، بلکہ بہتر ہے۔ ایڈورڈ فنولسا (Edward Fenollosa) کے چینی تراجم کے ذریعہ مغربی ادیب کو بیسویں صدی کے اوائل ہی میں معلوم ہو چکا تھا کہ نظم میں محض تاثر اور مبہم لیکن روایتی معنی کے فریم پر مبنی اشارے بھی ہو سکتے ہیں۔
پاؤنڈ نے اس خیال کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ روایاتی معنی کے فریم کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ اوپر درج کردہ اس کی نظم چینی طرز میں ہے۔ لیکن اس میں روایاتی معنی کا کوئی شائبہ نہیں۔ لہٰذا ایک طرف تو ملارمے اور والیری جیسے علامت نگار تھے جو نظم میں خیال کی وضاحت اور ربط کے بجائے اس کے ابہام اور بےربطی پر زور دے رہے تھے اور دوسری طرف پاؤنڈ اور ہیوم جیسے نظریہ والے تھے جو وضاحت اور ربط کی جگہ تاثر کی درستی (Accuracy of impression) کا تقاضا کر رہے تھے۔
لیکن یہ سلسلہ صرف انیسویں صدی سے نہیں شروع ہوتا۔ یہ خیال بہت شروع سے عام تھا کہ نظم میں خیال بیان کیا جائے تو بہت خوب، یا چند خیالات کو مرتب کرکے پیش کیا جائے یہ بھی بہت خوب، لیکن یہ بالکل ضروری نہیں کہ نظم کے مختلف حصوں، یا اس کے مختلف خیالات میں لامحالہ طور پر ایک سطری ربط یعنی (Linear relationship) ہو۔ باربرا اسمتھ کی کتاب The Poetic Closure کا مطالعہ ہی اس بات کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ نظم اختتام تک پہنچنے کے لیے کن کن مراحل سے گزر سکتی ہے۔ بہرحال آپ ۱۵۸۰ میں سرفلپ سڈنی کو سنیے،
’’صرف شاعر ہی ایک ایسی ہستی ہے جو (حکیموں، فلسفیوں وغیرہ کی) بندشوں اور مجبوریوں سے آزاد ہے بلکہ ان کو نظر حقارت سے دیکھتا ہے اور اپنی ہی قوت ایجاد کے بل بوتے پر ان مجبوریوں سے اوپر اٹھ جاتا ہے اور سچ پوچھیے تو ایک نئی فطرت (Another nature) کو اگاتا ہے اور پھر وہ یا تو اشیا کو ان کی اس حالت سے بہتر بناتا ہے جو ان میں فطرتاً خلق ہوئی تھی، یا پھر بالکل نئی چیزیں بناتا ہے، ایسی صورتیں جو فطرت میں پہلے کبھی تھیں ہی نہیں۔۔۔‘‘
ظاہر ہے کہ جب شاعر فطری چیزوں کو دوبارہ اپنے طور پر بناتا ہے، یا نئی چیز بناتا ہے تو اس کی تخلیق میں اس قسم کا اقلیدسی نظم ہونا لازم نہیں جو فطرت میں عام طور پر پایا جاتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ یونانی حکما بہت سی چیزوں کو محض اس لیے اچھی قرار دیتے تھے کہ وہ ان کے خیال میں فطری نظم کی آئینہ دار تھیں۔ خود ارسطو نے المیہ کے مختلف حصوں اور خطاب کے اسلوب کو جس طرح متعین کیا تھا، وہ اس کے خیال میں اس لیے بہترین تھا کہ وہ فطرت کے مطابق تھا لیکن ارسطوئی نظم وضبط کے اصول بہت دن قائم نہ رہ سکے، کیونکہ خود ارسطو کے نظام میں ان کی مخالف قوتیں موجود تھیں۔
بہرحال یہ الگ بحث ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ نظم میں جس قسم کی اقلیدسی ربط ونظم کا تقاضا کلیم الدین اسکول کے اراکین کی طرف سے اس لیے ہوتا ہے کہ یہ مغربی شعریات کا اہم اصول ہے، وہ ربط ونظم مغرب کی شعریات میں کوئی مرکزی حیثیت نہیں رکھتا۔ مغربی شعریات اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ یک سطری ربط کے علاوہ اور طرح کے ربط بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً تکرار بھی مربوط کرتی ہے اور یہ بات بھی مغربی مفکرین سے پوشیدہ نہیں کہ ہر طرح کی نظم میں اقلیدسی ربط نہیں ہو سکتا اور نظم کا اختتام تو ہوتا ہے، لیکن کوئی ضروری نہیں کہ اس میں ارتقا اور انتہا بھی ہو۔
اوپر میں نے عرض کیا ہے کہ نظم میں اقلیدسی ربط وتسلسل کی شرط رکھنے والے مفکرین کا کہنا ہے کہ ربط اور تسلسل ترقی یافتہ ذہن کی پہچان ہیں۔ دراصل ان مفکرین کا یہ خیال ان کی سب سے بڑی غلطی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ منطقی فکر یعنی دوچیزوں میں ربط دیکھ لینے کی صلاحیت اور اس سے نتیجہ نکالنے کی صلاحیت انسانی دماغ کی بہت بڑی قوت ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ قوت دماغ کے اس حصے میں ہوتی ہے جو ارتقا کے دور دوم میں وجود میں آیا لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ دماغ کا یہ حصہ پہلے حصے سے زیادہ ترقی یافتہ بھی ہے۔ بچے کے دانت بعد میں نکلتے ہیں اور آنکھ پہلے سے رہتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دانت، آنکھ سے زیادہ ترقی یافتہ ہوتے ہیں۔
انسان کے بہت سے عظیم ترین کارنامے اسی اولین دماغ کے باعث وجودمیں آئے ہیں جسے ’’دماغ خزندہ‘‘ Reptilian brain کہا جاتا ہے۔ علاوہ بریں زبان، جو انسان کا عظیم ترین تخلیقی کارنامہ ہے، ربط اور تسلسل سے کم وبیش عاری ہے۔ نوم چامسکی (Noam Chomsky) کی وضع عمیق Deep Structure) اور اس کی استحالاتی قواعدTransformational Grammar) بھی اس بات کو واضح نہیں کر پائی ہے کہ ایسے بہت سے فقرے اور الفاظ کے مرکبات بچوں کی زبان پر کہاں سے آ جاتے ہیں جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں سنا ہوتا، اور نہ ان کے ماحول میں ایسی گنجائش ہوتی ہے کہ وہ ایسے مرکبات اور فقرے وضع کر سکیں۔
واضح رہے کہ استحالاتی قواعد، مرکبات اور فقروں کے وضع کرنے کے اصول بنانے سے قاصر ہے۔ کلیم الدین صاحب کے نظریہ ربط وتسلسل پر اظہار کرتے ہوئے میں نے کئی سال پہلے لکھا تھا کہ قواعد اور صرف ونحوکے تقریباً تمام اصول منطق کے ماورا یا منطق سے بے گانہ ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی ہے کہ دنیا کی بعض اعلیٰ ترین زبانوں، مثلاً عربی میں ربط وتسلسل کا اظہار کرنے والی بنیادی اکائی، یعنی زمانہ (Tense) بہت ناقص درجے کی ہے۔ خود ہماری زبان کا یہ عالم ہے کہ ہم اکثر ماضی بول کر مستقبل اور مضارع بول کر ماضی مراد لیتے ہیں۔ قواعد اور صرف ونحو کا انتشار اور مختلف زبانوں میں ان کا فرق اتنا وسیع ہے کہ یہ بات بھی مشکوک ہو جاتی ہے کہ شایدکبھی کوئی آفاقی زبان رہی ہو، اور آج کی زبانیں اس قدیم آفاقی زبان کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں۔ لہٰذا جب انسان کے بہترین کارنامے میں عدم تسلسل اور انتشار کا یہ عالم ہے تو ہم کیوں کر کہہ سکتے ہیں کہ ربط وتسلسل لازمی طور پر ترقی یافتہ ذہن کی پہچان ہیں؟
زبان میں اس عدم تسلسل اور منطقی بے ربطی کا اثر ادب پر لازمی ہے۔ چنانچہ الیٹ کا مشہور قول ہے کہ جس طرح حقائق کی ایک منطق ہوتی ہے، اسی طرح جذبات کی بھی ایک منطق ہوتی ہے اور شاعری جذبات کی منطق کو استعمال کرتی ہے۔ کولرج اس نکتے کو بہت پہلے سمجھ چکا تھا، لہٰذا اس نے کہا کہ شاعری کی ضد نثر نہیں بلکہ سائنس ہے۔ یہاں اس بات کو ملحوظ رکھیے کہ نظم کی وحدت (Unity) اور شے ہے اور اس میں ربط وتسلسل شئے دیگر ہے۔ یک سطری ربط (Liner relationship) کے بغیر بھی وحد ت پیدا ہو سکتی ہے، جیسا کہ الیٹ نے خود کہا ہے، ’’مشمول یا مافیہ Material کی ایک حد تک مختلف النوعیت شاعر کے ذہن کی کارکردگی کے ذریعہ وحدت جبری میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ یہ ذہنی کارکردگی شاعری میں ہمہ وقت موجود رہتی ہے۔‘‘
ایک حدتک مختلف النوع مشمول کو شاعر کا ذہن وحدت میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اس کی اچھی مثال قصیدے میں ملتی ہے۔ تشبیب میں اکثر شعر بےربط ہوتے ہیں، لیکن شاعر ان کو تشبیب کی ہیئت میں اس طرح باندھتا ہے کہ وحدت پیدا ہو جاتی ہے۔ مومن کے مشہور قصیدے کی تشبیب کے پہلے چند شعر ہیں،
یاد ایام عشرت فانی
نہ وہ ہم ہیں نہ وہ تن آسانی
عیش دنیا سے ہو گیا دل سرد
دیکھ کر رنگ عالم فانی
جائیں وحشت میں سوے صحرا کیوں
کم نہیں اپنے گھر کی ویرانی
خاک میں اشک آسماں سے ملے
ہائے کیسی بلند ایوانی
ظاہر ہے کہ ان اشعار میں کوئی ربط نہیں، لیکن وحدت ہے۔ اقبال کی نظم ’’مسعود مرحوم‘‘ بھی اس وحدت کی اچھی مثال ہے۔ اس کے پہلے بند میں راس مسعود کا ذکر اور ان کی موت پر ماتم ہے، لیکن دوسرے میں انسانی زندگی کی بے ثباتی اور اسرار کا ذکر ہے اور تیسرے میں خودی کی تعریف وتلقین ہے۔ تینوں میں کوئی ربط نہیں، لیکن شاعر کا ذہن تینوں بندوں میں ایک ہی طرح کام کر رہا ہے، اس لیے پوری نظم میں وحدت ہے۔
نظم کی وحدت اور جذباتی منطق کی کارآفرینی کا تعلق اس بات سے بھی ہے کہ تمام منظوم کلام واقعی ’’کلام‘‘ یعنی Utterance ہوتا ہے اور کلام کا تعلق، بلکہ اس کی بنیاد ’’زبانی پن‘‘ یعنی Orality پر ہے۔ مغرب کو یہ بات معلوم کرنے میں کئی سو برس لگے کہ شاعری گفتگو یعنی Discourse نہیں، بلکہ کلام یعنی Utterance ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں (یعنی عربی فارسی اردو میں) شاعری کے لیے ’’کلام‘‘ کا لفظ عرصہ دراز سے مستعمل ہے۔ کلام کی داخلی منطق، تحریر ی داخلی منطق سے الگ ہوتی ہے، اس بات کا احساس ہم لوگوں کو بہت کم ہے، لیکن مغرب سے زیادہ ہے، جیسا کہ والٹرآنگ (Walter Ong) نے اپنی کتاب ’’زبانی پن اور خواندگی‘‘ Orality and Literacy میں دکھایا ہے۔
خواندہ تہذیبوں کو زبانی تہذیبوں کی نوعیت کا احساس بہت کم ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ناخواندہ لوگ بھی، اگر وہ خواندہ تہذیبوں میں رہتے ہیں، زبانی تہذیب کا پورا احساس نہیں کر سکتے۔ ایسی تہذیب کو، جس میں خواندگی بالکل نہ ہو، والٹرآنگ ’’اولین زبان پن‘‘ Primary Orality سے مختص قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے، ’’خالص زبانی روایت، یا اولین زبانی پن کا درستگی اور معنویت کے ساتھ تصور کرنا آسان نہیں۔ تحریر کی بناپر’’الفاظ‘‘ اشیا سے مشابہ لگنے لگتے ہیں، کیونکہ ہم الفاظ کا تصور دکھائی دینے والے نشانات کی حیثیت سے کرتے ہیں، جن کے ذریعہ وہ الفاظ (اشیا کے) کوڈ (Code) کو ظاہر کرتے ہیں۔ ہم متون میں اور کتابوں میں لکھے ہوئے ایسے ’’الفاظ‘‘ کو چھو اور دیکھ سکتے ہیں۔‘‘
تحریری لفظ پر اس مکمل انحصار کے باعث الفاظ کی آوازیں، ان کے اتار چڑھاؤ، ان کے رنگ روپ، ہم سے نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بولا ہوا لفظ لکھے ہوئے لفظ سے زیادہ موثر ہوتاہے اور اس کا اثر لکھے ہوئے لفظ کے مقابلے میں مختلف طرح سے عمل میں آتا ہے، لیکن ہم روز مرہ کی زندگی میں اس اصول کی کارفرمائی دیکھ سکتے ہیں۔ کسی لڑکی کو پرچے پر لکھ کر بھیجنا کہ ’’مجھے تم سے محبت ہے۔‘‘ یہی بات اس سے زبانی کہنے کے مقابلے میں زیادہ مشکل اور مختلف معلوم ہوتی ہے۔ کلام میں ’’ربط‘‘ کے وہ معنی نہیں ہوتے جو تحریر میں ربط کے ہوتے ہیں۔ کسی بھی پڑھے لکھے شخص کی آزاد گفتگو Free Speech کی ٹیپ اور اس کی تحریر کے ایک صفحے کا مقابلہ اس بات کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔
ہماری شاعری چونکہ ایسے سماج میں پیدا ہوئی جو اولین زبانی پن (Primary orality) کی صفت سے متصف تو نہ تھا، لیکن بڑی حد تک ناخواندہ اور زبانی تھا۔ اس لیے ہماری شاعری میں کلام کا عنصر ہر حیثیت سے زیادہ رہا ہے۔ مشاعرے اس بات کا زندہ ثبوت ہیں۔ قصیدے اور مرثیے لکھے ہی اس لیے جاتے تھے کہ محفلوں میں سنائے جائیں۔ مثنوی کو بھی پڑھ کر یا زبانی سنانے کا رواج تھا۔ کہنے کو تو مرثیے، مثنوی اور قصیدے غزل کے مقابلے میں مربوط ہوتے ہیں، لیکن ذرا سا بھی تجزیہ اس بات کو واضح کر دےگا کہ ہر قصیدے یا ہر مرثیے یا مثنوی میں ربط کا عنصر برابر نہیں ہوتا۔ اردو میں نظم کی تعریف متعین کرتے وقت ہمارے سماج کی نیم خواندگی اور اس کے بڑی حد تک زبانی Oral ہونے کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ داستانوں کا مطالعہ ہمیں ایک حد تک خالص زبانی کلام کی صفات کا اندازہ دے سکتا ہے۔
لہٰذا نظم میں عام طور سے ایک طرح کا ربط اور تسلسل ضرور ہوتا ہے، لیکن نظم چونکہ کلام ہے، اس لیے یہ ربط اور تسلسل ہر نظم کے ساتھ گھٹتا بڑھتا رہتا ہے اور اس کی نوعیت بھی بدلتی رہتی ہے۔ ہر نظم میں ایک ہی طرح کا ربط وتسلسل نہیں ہوتا اور مختلف اقسام نظم میں بھی اس صفت کی کیفیت اور کمیت مختلف ہوتی ہے۔ قصیدے کا تسلسل اور طرح کا ہے مثنوی کا اور طرح کا، نئی نظم کا اور طرح کا اور ربط وتسلسل کاوہ اقلیدسی تصور جو مغربی شعریات کے غلط مطالعے پر مبنی غلط نتائج نکال کر بعض لوگوں نے عام کرنا چاہا، وہ بہرحال ناقص اور ناکافی ہے۔
اسی طرح ہمیں یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں کہ صاحب، غزل میں بھی ایک طرح کا داخلی تسلسل، ایک مابعد الطبیعیاتی ربط، ایک مزاج، ایک ہم آہنگی ہوتی ہے۔ غزل میں ربط نہیں ہوتا۔ نظم میں ربط ہوتا ہے اور نہیں بھی ہوتا لیکن وحدت ضرور ہوتی ہے۔ غزل میں وحدت بھی نہیں ہوتی اور یہ غزل کی سب سے بڑی مضبوطی ہے۔ غزل کی ہیئت تمام دنیا کی اصناف میں بے مثال اور وحید Unique ہے۔ ہمیں غزل کی نام نہاد’’ریزہ خیالی‘‘ پر شرمندہ نہ ہونا چاہیے، بلکہ ہمیں اس مہمل لفظ کو تنقید کے دائرے سے باہر نکال دینا چاہیے۔
ریزہ خیالی کیا ’’لالۂ صحرا‘‘ میں نہیں ہے؟ ریزہ خیالی کیا ’’زمانہ‘‘ میں نہیں ہے؟ ریزہ خیالی کیا ’’محراب گل افغان کے افکار‘‘ کے بعض حصوں میں نہیں ہے؟ ان منظومات میں وحدت ہے، اس لیے یہ نظم ہیں۔ ’’اگر کج روہیں انجم آسماں تیرا ہے یامیرا‘‘ میں وحدت نہیں ہے۔ اس کے دو شعر (’’اے صبح ازل‘‘ اور ’’محمد بھی ترا‘‘) باقی تین سے بالکل الگ ہیں۔ غزل کو اس کی بحر، قافیہ اور ردیف جتنی وحدت بہم پہنچا دیتے ہیں، وہ اس کے لیے کافی ہے۔ اتنی وحدت نظم کے لیے کافی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر وہ منظومہ جو غزل نہیں ہے، نظم ہے اور نظم کی بنیادی صفت وحدت ہے، جس کا ایک تفاعل ربط و تسلسل ہے۔ یہ ربط وتسلسل کئی طرح کا ہوتا ہے اور ہر نظم کے ساتھ اور ہر قسم ِنظم کے ساتھ بدلتا بھی رہتا ہے۔