نظم کی زبان
زبان کا تصور سماج کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ فرد کی اپنی کوئی زبان نہیں ہوتی، وہ سماج سے ایک زبان سیکھتا ہے۔ تحریر کی اہمیت کے باوجود، زبان کی بنیاد بول چال میں ہے۔ زبان سیکھ لی جائے تو یہ ایک عادت بن جاتی ہے۔ زبان میں طبقوں کا فرق بھی ملتا ہے۔ اس میں برابر تبدیلی ہوتی ہے۔ بقول ماریو پائی کے جس زبان میں تبدیلی نہیں ہوتی، وہ مردہ ہو جاتی ہے۔ یہ تبدیلی اصوات میں بھی ہوتی ہے، الفاظ میں بھی، قواعد میں بھی اور معنی کے رشتوں میں بھی۔ زبان میں جہاں تبدیلی ہوتی رہتی ہے، وہیں وہ ایک معیار بھی حاصل کرنے اور پھر اسے قائم رکھنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔
ادبی اسالیب، ایک مضبوط مرکزی حکومت، نصاب تعلیم کی یکسانیت، تجارت و نقل و حرکت کے ذرائع، فوجی خدمت اور ایک ترقی یافتہ دفتری نظام، ایک مذہب یا ایک قومیت کے تصور سے بھی معیار میں مدد ملتی ہے۔ اگر معیار قائم رکھنے کی قوت کم ہو جائے، تو تبدیلی کی صلاحیت اپنا اثر اور زیادہ دکھائے۔ تحریر کی زبان میں عام طور پر تبدیلی بول چال کی زبان میں تبدیلی کے پیچھے چلتی ہے۔ اچھی زبان وہ ہے، جو پوری تہذیب کی آئینہ دار ہو۔
ہم زبان کے اس تصور کو ذہن میں رکھیں، تو ادبی زبان کو اتنا مقدس نہیں سمجھا جائےگا، نہ اس کی بعض خوبیوں کی خاطر بول چال کی زبان سے اس کی بہت زیادہ دوری گوارا کی جا سکےگی۔ ظاہر ہے کہ ادبی زبان معیاری زبان ہے، یہ الفاظ کی بہترین ترتیب کا دوسرا نام ہے۔ یہاں الفاظ سائنسی زبان کی طرح صرف معلومات کی کنجی نہیں، نہ بول چال کی زبان کی طرح محض کام چلاؤ، یہاں الفاظ کا اظہار تخلیقی ہے۔ یہ بھرپور تاثر دیتے ہیں، یہ ذہن کے دریچے کھولتے ہیں، فضا میں بے نام پل بناتے ہیں اور زمان و مکان کو اسیر کر لیتے ہیں، مگر رفتہ رفتہ ان میں وہی بات آ جاتی ہے، جو ان صاف شدہ چاولوں میں ہوتی ہے، جن کا حیات بخش جوہر کھینچ لیا گیا ہو۔ اگر ادبی زبان بول چال کی زبان سے دور ہو جاتی ہے تو وہ کتنی ہی خوبصورت کیوں نہ دکھائی دے، اس کی مثال ان کاغذ ی پھولوں کی سی ہے جو آنکھوں کو تو بھلے معلوم ہوتے ہیں مگر خوشبو نہیں دیتے، نہ ان کے گرد آکر شہد کی مکھیاں بھنبھناتی ہیں۔
شاعری کی زبان نثر سے مختلف ہوتی ہے۔ شاعری تخلیقی اظہار ہے، نثر تعمیری۔ شاعری کی زبان تاثر عطا کرتی ہے، نثر کی علم۔ ایک متاثر کرتی ہے، دوسری قائل۔ بہر حال دونوں معیاری زبان کے دو پہلو ہیں، جو ایک دوسرے کو مدد دیتے ہیں اور ایک دوسرے کی کمی کو پورا کرتے ہیں۔
ایلیٹ نے شاعری کی تین آوازوں کا ذکر کیا ہے۔ پہلی شاعر کی وہ آواز ہے، جب وہ اپنے آپ سے باتیں کرتا ہے۔ دوسری جب وہ ایک مجمع کو خطاب کرتا ہے اور تیسری جب وہ کسی فرضی یا اصلی کردار کی زبان میں بولتا ہے۔ شاعر جب اپنے آپ سے باتیں کر رہا ہے، تو اگرچہ اس وقت بھی وہ یہی سماجی آلہ استعمال کرتا ہے، مگر ایک طرح سے اس وقت وہ دنیا سے کچھ بے تعلق سا ہو جاتا ہے۔ میرے نزدیک غزل کی زبان اسی پہلی آواز کی نمائندگی کرتی ہے۔ ہماری غزل چونکہ صرف دل کی واردات نہیں رہی، اس لئے اس کی زبان بھی صرف شاعر کی خود کلامی تک محدود نہیں رہی، بلکہ اس میں دوسری دونوں آوازوں کی لے بھی شامل ہو گئی ہے۔ یہ اچھا ہی ہوا، مگر غزل در اصل پہلی آواز کی ترجمان ہے۔ اس لئے دوسری اور تیسری آوازوں کی پوری پوری نمائندگی نہیں کر سکتی۔
غالبؔ اور اقبالؔ کا بڑا احسان یہ ہے کہ انہوں نے حدیثِ دلبری کو صحیفۂ کائنات بھی بنا دیا، مگر یہ صحیفہ مغل تصویروں کی طرح کا ہے۔ یہ اشاروں کا صحیفہ ہے اور ہم اسی پر تکیہ کیے بیٹھے نہیں رہ سکتے۔ نظم کی زبان، غزل کی زبان سے اس لئے مختلف ہونی چاہیے کہ نظم کا میدان بہت وسیع ہے۔ اس میں نثر کی تعمیری صلاحیت سے بھی کام لیا جا سکتا ہے۔ اس میں اشارے کے بجائے صراحت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں شاعر کی دوسری اور تیسری آوازوں کی بھی گنجائش ہے اور پہلی آواز میں بھی اس طرح سنائی دے سکتی ہے کہ مختلف آوازیں مل کر ایک سنگیت بن جائیں، جو مسرت اور بصیرت کاخزانہ ہو۔
ایلیٹؔ ہی نے ایک اور جگہ کہا ہے کہ جس شاعر میں طباعی ہوتی ہے، وہ براہِ راست زندگی کی طرف جاتا ہے، جو شاعر تقلیدی اور خوشہ چین قسم کا ہوتاہے وہ ادب کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اس بات کو اس طرح سے بھی کہا جاسکتا ہے کہ پہلی قسم کا شاعر زندہ زبان استعمال کرتا ہے اور دوسری قسم کا کتابی۔ اردو شاعری کی زبان زیادہ تر کتابی ہے، اور اس کتابی زبان کا بڑا حصہ غزلوں پر مشتمل ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ میں میرؔ، سوداؔ، سوزؔ، دردؔ، جرأتؔ، آتشؔ، ذوقؔ، داغؔ، حسرتؔ، آرزوؔ وغیرہ کو نظر انداز کر رہا ہوں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کے باوجود مجموعی طور پر غزل کی زبان جس طرح ناسخؔ، غالبؔ، اقبالؔ، فانیؔ سے متاثر ہوئی ہے، اس کی طرف اشارہ مقصود ہے۔
کتابی زبان کو ایک اور مثال سے واضح کیا جا سکتا ہے۔ ورڈس ورتھ نے اٹھارویں صدی کی انگریزی شاعری کی زبان کو مصنوعی کہا۔ اس کے رچاؤ اور پختگی میں زندگی کی کمی پائی، نثر اور نظم کے مروجہ امتیاز کو کم کرکے شاعری کی زبان کو بول چال کی زبان سے قریب لانا چاہا، خود اس نے اپنی نظموں میں اس کے تجربے بھی کیے، جن میں سے کچھ کامیاب ہیں کچھ ناکام۔ کولرج نے اس کے باغیانہ جوش کی اصلاح کی۔ مگر اس میں شک نہیں کہ ورڈس ورتھ نے دکھتی رگ پر انگلی رکھی تھی اور اس کے اثر سے انگریزی شاعری کو نیاجذبہ، نئی توانائی، نئی زندگی، نیا لہجہ اور نیا اسلوب ملا۔ اس کی طاقت کا کیا راز ہے؟ ورڈس ورتھ نیچرل ہوتے ہوئے بھی مصنوعی ہے کیونکہ ادبی ہے مگر اس کی کوشش صحت مند ہے اور اس کے بڑے اچھے نتائج نکلے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی حالیؔ سے اس قسم کی کوشش کا آغاز ہوتا ہے۔ ان کے یہاں بھی اس قسم کے اشارے ملتے ہیں،
صنعت پہ ہو فریفتہ عالم اگر تمام
ہاں سادگی سے آئیو اپنی نہ باز تو
مقدمۂ شعر و شاعری میں انہوں نے ملٹن کے ایک جملے سے مدد لے کر، جوتکلم کے موضوع پر اس کے ایک مضمون میں ملتاہے، سادگی اصلیت اور جوش پر زور بھی دیا ہے۔ مگر کیا ہم یہ ایمانداری سے کہہ سکتے ہیں کہ حالیؔ کے نقطۂ نظر نے شاعری کی زبان سے متعلق ہمارا تصور یکسر بدل دیا ہے! اس میں شبہ نہیں کہ حالیؔ کاگہرا اثر ہوا ہے مگر مجموعی طور پر نظم کی زبان میں ابھی تک کلاسیکی رنگ و آہنگ زیادہ ہے اور غزل کی زبان کا اس پر غلبہ مسلم ہے۔
غز ل کی زبان کا اثر ایک اور وجہ سے بھی گہرا ہے۔ اردو کے عام شاعر کا احساس چند بندھے ٹکے موضوعات ہی کااظہار کر سکتا ہے۔ رومانی عشق، مبہم سی انسان دوستی، رواجی اخلاق، محدود نظریۂ علم، عشق کی عقل پر فوقیت، طبقاتی احساس، شہری مزاج، مخصوص مذہبی رنگ۔ یہاں میں صرف ان معنوں میں گفتگو نہیں کر رہا ہوں جن معنوں میں آزادؔ نے اردو شاعری کی زبان پر تنقید کی تھی اور نہ صرف ان معنوں میں جن میں فراقؔ نے اردو میں قدیم ہندوستانی عناصر کی کمی کا ماتم کیا ہے، بلکہ میں تہذیبی فضا کے محدود ہونے کی بات کر رہا ہوں، جو جاگیر دارانہ ذہن کی زیادہ غماز ہے، جسے سماجی تبدیلیوں کا پورا پورا احساس نہیں ہے اور جو تبدیلی پر ماتم زیادہ کرتا ہے، ان کا خیرمقدم کم۔ جو ٹھہراؤ کا زیادہ قائل ہے، تعمیر کا کم اور جو ماضی کو بھی صرف ماضی قریب تک ہی محدود سمجھتا ہے اور اس سے دور جانے کو تیار نہیں۔
اس لئے میرے نزدیک نظم کی زبان، غزل کی زبان کے رچاؤ، اس کی اشاریت، اس کے تہذیبی میلانات، اس کی سماجی اور اخلاقی قدروں سے بلند ہو سکے، تو یہ اچھی بات ہوگی۔ نشتر کی تاثیر اور حسن سے انکار نہیں، مگر پھاوڑے کے دور میں، ہاتھ میں صرف نشتر لئے زندگی کے معرکے کو سر نہیں کیا جا سکتا۔ نشتر کی ضرورت بھی رہے گی، مگر صرف نشتر پر فخر کرنے سے کام نہیں چلےگا۔
نظم کی زبان کی بنیاد بے شک بول چال کی زبان تو ہونی چاہیے، مگر چونکہ نظم ادب کی ایک شاخ ہے، اس لئے بول چال کی زبان کی بے پروائی اور بدنظمی، اس کے نشیب و فراز اور اس کی جنسی معاملات میں بے چھپک بات چیت کو ایک ترتیب یا معیار کی چھلنی سے اس طرح گزرنا ہوگا کہ اس کا عام فہم، جاندار اور جذبے سے بھرپور حصہ سب کا سب آجائے اور اس کی مخصوص اصطلاحیں، ناپختگی، اس کا سوقیانہ پن، اس کی چلتاؤ لکنت نکل جائے۔ بلکہ اس کے سوراخ اتنے بڑے ضرور ہونے چاہئیں کہ ان سے چوکر کا خاصا حصہ بھی آٹے کے ساتھ نکل آئے اور اس طرح غذائیت کا اہتمام ہو سکے۔ اس زبان کو فارسی، عربی یا سنسکرت کی قواعد سے بھی تمام تر آزاد ہونا پڑےگا۔
آج ہم نثر میں ہندی الفاظ کے ساتھ فارسی الفاظ اضافت میں نہیں لاتے، لیکن قدمااس کا چنداں لحاظ نہیں رکھتے تھے۔ ہم فارسی کی وہ ترکیبیں استعمال کرتے ہیں جو صرف ایک محدود طبقہ جانتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہماری بات عام اردو داں نہیں سمجھ سکتا، جس کا فارسی کا علم نہ ہونے کے برابر ہے۔ غالبؔ اور اقبالؔ کی عظمت کا اعتراف اور احترام کرتے ہوئے ہمیں یہ کہنے میں تامل نہ ہونا چاہیے کہ آئندہ کے غالبؔ و اقبالؔ اس زبان کو بجنسہ استعمال کرنے پر قادر بھی ہوئے تو ان کی بات بہت کم لوگ سمجھ سکیں گے۔ انہیں اپنی بات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لئے بول چال کی اردو کو بنیاد بنانا پڑےگا۔ گویا اس سلسلے میں وہ قدما کی روش اختیار کریں گے اور یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہوگی، ان سے پہلے بھی بہت سے لوگوں نے ماضی قریب کو چھوڑ کر ماضی بعید سے رشتہ جوڑا ہے۔
دوسرے ان شاعروں کو اپنی بات کہنے اور منوانے کے لئے اشاروں، کنایوں، جھلکیوں، حیرت ناک جلوؤں کے بجائے مسلسل اظہار، تعمیری اظہار، آغاز، وسط، انجام، گویا فارم کے ایک گہرے تصور کو اپنانا پڑےگا اور اس لئے نظم کو ایک چھوٹی مثنوی یا مسدس یا چندیوں ہی سے مربوط بندوں سے آگے بڑھا کر بے قافیہ یا آزاد نظم کو اور ترقی دینا پڑےگی۔ اردو دنیا چونکہ قدامت پرست اور روایت پرست زیادہ ہے، اس لئے اس نے بے قافیہ یا آزاد نظم کی تحریک کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ جیسا کہ ایلیٹ نے کہا ہے کہ آزاد نظم، فن کے قیود سے آزادی کا نام نہیں، بلکہ فن کے ساتھ ایک تازہ اور دوسروں سے زیادہ گہری وفاداری کا نام ہے۔ یہ چند معمولی قیود سے آزادی اس لئے حاصل کرتی ہے کہ بعض گہری ذمہ داریوں سے عہدہ برآہوسکے۔
شاعری کی تیسری آواز کی مکمل نمائندگی بے قافیہ یا آزاد نظم ہی میں ہو سکتی ہے۔ ہماری مثنویوں میں ہزاروں اشعار ملتے ہیں، مگر مصرعوں کی برابری اتنی ہی اکتا دینے والی ہوتی ہے جتنی اٹھارہویں صدی کی باقاعدہ، ہموار، قدم ملاکر چلنے والی شاعری۔ جب ارکان کی برابری اکتا دینے والی اور خیال کو برابر برابر ٹکڑوں میں کاٹنے والی ہے، تو قافیے کی معمولی سی پابندی بھی ذہنی رو پر بندباندھنے والی ہے۔ یہاں ردیف یا قافیے کو ترک کردینے کا سوال نہیں ہے، نہ پابند شاعری کو ادب بدر کرنے کی تجویز۔
میں تو عظمت اللہ خان کی طرح یہ کہنے کو ہرگز تیار نہیں کہ غزل کی گردن بے تکان مار دینا چاہیے۔ یہاں صرف زبان اور فن کے تصور میں توسیع کا سوال ہے۔ اگر ہمارے اصنافِ سخن پر سے قافیے، ردیف اور بحروں کی یہ آمریت کم ہو جائے جس کے شکنجے میں الفاظ کا گودا نکل جاتا ہے اور ہم ان کی ہڈیوں کی مالا بناتے رہتے ہیں، تو ہمیں تندی صہبا کو اس لئے کم نہ کرنا پڑےگا کہ مبادا کہیں آبگینہ پگھل جائے، نہ خیالات پر اتنے بند باندھنے پڑیں گے، نہ اس کو ٹکڑوں میں پیش کرنے پر قناعت کرنی پڑے گی، نہ وہ فن کی مجبوریوں کی وجہ سے کچھ سے کچھ ہو جائےگا، بلکہ اسے اپنی پوری تاثیر اور تیزی دکھانے کا موقع ملےگا۔
بے قافیہ اور آزاد نظم کی کوشش اور کامیاب ہوتی، اگر اس کی بنیاد بول چال کی زبان پر قائم ہوتی، مگر نہ صرف اس کی بنیاد بول چال کی زبان پر نہیں رکھی گئی، بلکہ اس کے موضوعات بھی اکثر ایسے چنے گئے جو عام زندگی کے موضوعات نہیں تھے۔ یہ کچھ مریض اور کج ذہنوں کی بے راہ روی کو چھپانے کے لئے ایک دبیز پردہ بن گئے۔ راشدؔ کا ذہن اقبالؔ کے ذہن سے مختلف ہے، مگر ان کی زبان اقبالؔ سے کم فارسی آمیز نہیں ہے اور چونکہ ان کے یہاں اقبالؔ کی طرح ابلاغ کی کوشش نہیں ہے اس لئے اپنے ذہن کی الجھنوں کو سلجھانے کے لئے انہیں خاصی کاوش کرنی پڑتی ہے۔
ماورا سے ایران میں اجنبی تک کے راشدؔ میں خاصا فرق ہے۔ ایران میں اجنبی کا راشدؔ اپنے تجربے کا بوجھ پھینک کر سبک دوش ہونا ہی نہیں چاہتا، وہ کچھ کہنا بھی چاہتا ہے۔ اس لئے یہاں تراکیب کی طلسم بندی کم ہے، مگر چونکہ وہ اپنے خول سے نکلنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوا، اس لئے وہ کتابی زبان کی پناہ لینے پر اب بھی مجبور ہے۔ میراجیؔ اس لحاظ سے زیادہ کامیاب ہے۔ ان نظموں کو چھوڑ کر جن میں جنسی تجربے رمزیہ اسلوب میں بیان کئے گئے ہیں، وہ خاصی صاف ستھری زبان لکھتا ہے اور کلرک کا نغمۂ محبت جیسی نظموں میں وہ کامیاب بھی ہے اور موضوع سے انصاف کرنے والی زبان کے استعمال پر قادر بھی۔
راشدؔ اور میراجیؔ کی تو کچھ اپنی الجھنیں تھیں، جن سے وہ مجبور تھے، مگر سیاست کے شاعروں نے بھی ادبی بساط پر کچھ کم دھاندلی نہیں کی۔ اقبالؔ کی زبان اور جوشؔ کی زبان میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں، گو دونوں کے پیغام میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اقبالؔ بھی جوشؔ کی طرح حال کے درد سے آگاہ ہیں، مگر ان کے نزدیک اس کا علاج ماضی کو یکسر نذر آتش کر دینے میں نہیں، ماضی سے صالح بنیادی قدریں لے کر، حال کی دلدل میں راستہ بنانا ہے۔ وہ جب کہتے ہیں کہ اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد کریں گے، تو گو وہ بستیاں کوفہ و بغداد نہ ہوں گی، مگر ان میں کوفہ و بغداد نئے رنگ میں ہوں گے۔ جوشؔ ماضی سے بیزار ہیں، اس کے باوجود ماضی کی زبان سے اس طرح چمٹے ہوئے ہیں کہ اگر کوئی کہے کہ کافی عرصے سے ملاقات نہیں ہوئی، تو وہ تیوری پر بل ڈال کر فرماتے ہیں کیا میدان سے ملاقات نہیں ہوئی؟
جوشؔ زندگی کی ترجمانی کے دعوے دار ہیں، مگر کتابی زبان لکھتے ہیں۔ اقبالؔ ایلیٹ کے الفاظ میں آریجنل شاعر ہیں، جوشؔ خوشہ چین شاعر ہیں۔ جوشؔ کے یہاں نئی زندگی ایک نیا لبادہ ہے جس کے چاک سے جابجا پرانا پیراہن جھانکتا ہے۔ اسی طرح بعض ترقی پسند شعرا نے عوامی زبان یا عوامی موضوعات استعمال کرکے غلطی نہیں کی، بلکہ یہ غلطی کی کہ انہوں نے ان موضوعات اور زبان کو ایک تو چند سیاسی اور وقتی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ اس دھارے کو جو اپنی موج میں بہہ رہاتھا، پشتے باندھ کر اسے اپنے نزدیک سیدھے راستے پر ڈال دیا اور اس طرح اس کے حسن کو غارت کر دیا۔ دوسرے انہوں نے کتابی ذہن کو عوامی زبان میں داخل کرکے ایسی شاعری کو جنم دیا، جس میں سیاست کی بدصورتی تھی، اس کا ذہن تھا، جس میں عوام کی زبان کا پھوک تھا، اس کا رس غائب ہو گیا تھا۔
عوامی شاعری کتابوں، سیاسی دستاویزوں، پارٹی کے پروگرام میں شرکت ہی سے نہیں ہوتی، ان کے باوجود بھی ہوسکتی ہے، بشرطیکہ شاعر اس طرح ‘عوام‘ بن جائے جس طرح فلابیر نے کہا تھا کہ میں مادام بواری ہوں، یا جس طرح رومین رولاں نے کہا تھا کہ میں اینٹ (ANNETTE) ہوں۔ اس کے لئے درس گاہوں اور دفتروں، ڈرائنگ روم اور پارٹی آفس میں محصور ذہن کافی لچک دار نہ تھا۔ جوشؔ اور چند ترقی پسندوں کی مثال جنہوں نے سیاسی موضوعات پر پابند اسالیب میں طبع آزمائی کی یا آزاد نظموں اور عوامی گیتوں کے پردے میں فارمولے کی شاعری کی، اس لئے عبرت ناک ہے، کیونکہ کچھ لوگوں نے اس سے غلط نتیجہ بھی نکالا۔
انقلابی شاعری کے لئے جس ذہن کی ضرورت تھی، اس کے بجائے ان کے پاس باغیانہ ذہن تھا۔ اس کے لئے جس زبان کی ضرورت تھی اس کے لئے ان کے پاس وہ زبان تھی جو مشاعرے کی مجلسی تفریح کے کام آ سکتی تھی، ذہن میں روشنی نہیں کر سکتی تھی اور اس کے تجربے بھی پوری ایمانداری سے نہیں کئے گئے۔ ان تجربوں کی کامیابی کے لئے ذہن کی ایک بتی بجھانی اور دوسری جلانی تھی۔ شہریت کی مصنوعی فضا اور اس کے پرکار ذہن کی جگہ دیہات کی سادہ، بے چھپک اور معصوم فضا جذب کرنی تھی۔ یہ تجربہ اس لئے ناکام نہیں رہا کہ اس میں کامیابی کا امکان نہ تھا، بلکہ اس لئے کہ یہ ایمانداری سے نہیں کیا گیا اور یار لوگوں نے مزید تماشا یہ کیا کہ فصل ابھی بوئی گئی تھی کہ اس کا نیلام بھی ہو گیا۔
جدید ہندوستان میں تہذیبی سرگرمیوں کا جو احیا ہوا ہے، اسے کچھ لوگ خواہ کتنی ہی حقارت سے دیکھیں مگر یہ آزاد ہندوستان کی فطری کوشش ہے، اپنی بنیادوں کو استوار کرنے کی، اپنے آپ کو پانے کی، اپنے محدود، مصنوعی اور کاروباری ماحول میں، سارے ملک کے درو و داغ اور سوز و ساز کو سمولینے کی۔ یہ تہذیب کے صحیح تصور تک پہنچنے کی کوشش ہے۔ یہ ادب کو تہذیب کے جامع تصور کے ذریعے سے فنونِ لطیفہ کے جانے پہچانے، آزمودہ تجربات اور بصیرتوں سے بھرپور، محنت، خدمت، دکھ اور دلاسے کے خزانوں سے مالا مال کرنے کی کوشش ہے۔ یہ مغرب کے ان تجربوں سے جن کو خام ذہن کتابوں سے حاصل کرتے ہیں، کہیں زیادہ صحت مند ہے۔ اس تہذیبی بساط میں انسان دوستی کے، رواداری کے، کثرت اور وحدت کے جو نقش ابھرتے ہیں، وہ قومی سالمیت کے لئے ضروری ہیں۔ ان کے راستے سے مغرب کے تجربوں سے بھی صحیح معنی میں فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
میں یہ نہیں مانتا کہ اردو شاعری کی زبان بدیسی ہے، لیکن یہ ضرور مانتا ہوں کہ اردو شاعری کی زبان مجموعی طور پر ہمارے دیس کے ایک محدود طبقے یعنی شمالی ہند کے شہروں کے متوسط طبقے کے فکر و ذہن کی نمائندگی کرتی ہے۔ میں یہ بھی مانتاہوں کہ جس طرح جدید انگریزی شاعری ادبی ہوتے ہوئے بھی عام فہم ہے، اس طرح سے ہماری شاعری عام فہم نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ ہماری زبان میں اس کی پوری صلاحیت موجود ہے کہ وہ ہماری پوری تہذیبی بساط کی آئینہ داری کر سکے۔ ہاں اس کے لئے ہمارے شاعروں کو شاعری کی طاقت، فضیلت اور عظمت میں یقین اور اعتماد پیدا کرنا ہوگا۔
خونِ جگر مال تجارت ہو یا نہ ہو، اس سے قانونِ باغبانیٔ صحرا، تو بہر حال لکھا جاتا رہےگا۔ اسے لاکھ صنعتی دور کی بے رحمی اور سنگ دلی سے سابقہ پڑے، وہ اس کے بے ستون سے جوئے شیر نکالتا ہی رہےگا، کیونکہ عشق کے امتحان کبھی ختم نہیں ہوتے، مگر اسے یہ فیصلہ ضرور کرنا پڑےگا کہ کیا وہ اپنے دور کی ترجمانی میں صرف حفظانِ صحت کے داروغہ کا فرض سرانجام دے دینے کو کافی سمجھتا ہے، یا بینڈ ماسٹر کی چمکتی ہوئی وردی اور اس کے گرد ہجوم سے مرعوب ہے، یا اسے اپنی ناکامیوں اور نامرادیوں کا سماج سے انتقام اس طرح لینا ہے کہ ہر خوشۂ انگور کو کھٹا بتادے کیونکہ اس نے اسے چکھا نہیں ہے۔
اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ سردی میں کپکپاتے ہوئے بھی جشن کے چراغاں کی تابناکی پر وجد کرتا رہے یا کسی کے اشارے پر سرکاری اسکیموں کی کامیابی کے راگ گائے۔ اس کی وفاداری اپنی ذات سے، اپنے علاقے سے، اپنی برادری ہی سے نہیں، اس پورے ملک سے ہوگی جس کے جلوۂ صد رنگ میں اس کی بھی بہار ہے، جس کے چمن میں اس کے بھی پھول ہیں۔ وہ اگر قومی، جمہوری اور اجتماعی تصور کو اپنائے گا، تو اسے فکر و فن کے لئے لامحدود فضا ملےگی۔
میں نے نظم کی زبان کے سلسلے میں، زبان کے صحیح تصور، تہذیبی پس منظر، موضوعات، قومی نقطۂ نظر، عوامی بساط کا اس لئے ذکر کیا ہے کہ میرے خیال میں زبان کا تصور، ان چیزوں کے بغیر ناقص رہتاہے۔ ان کے سہارے ہم آسانی سے نہ صرف اپنے دور کی نمائندگی میں کامیاب ہو سکتے ہیں، بلکہ آنے والوں کی راہ کے بھی بہت سے کانٹے نکال بھی سکتے ہیں۔ ہمیں الفاظ کی صحت اور غلطی کے معیار کو بدلنا ہوگا، مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ ہمارے معیار یکسر بدل جائیں گے۔ ہاں ان میں خاصی لچک ہوگی۔ ہمیں فارسی تراکیب کی بیساکھی کا اتنا سہارا لینے کی ضرورت نہ ہوگی کیوں کہ بیساکھیاں ایک حدتک اپنے پیروں میں طاقت کی کمی کا بھی ثبوت ہیں۔ ہمیں بحروں، قافیے، ردیف، مروجہ اصنافِ سخن کی شکنجہ بندی وغیرہ سے بھی خاصا آزاد ہونا پڑےگا۔
ہمیں نظم کو اس قابل بنانا پڑےگا کہ وہ ایک طرف دھرتی پر ہل چلاتے ہوئے کسان کے ذہن کی ترجمانی کر سکے اور دوسری طرف ان خلا کے سیاحوں کے ذہن کی عکاسی بھی، جو زمین کے حسن کوکشش ثقل سے آزاد ہوکر دیکھ رہے ہیں۔ اس کے لئے ہمارا موجودہ علم اور زبان کا محدود سرمایہ کافی نہ ہوگا، بلکہ بول چال کی زبان کی بنیاد کے ساتھ جدید علمی زبان سے بھی کہیں کہیں مدد لینی پڑے گی۔ خصوصاً ہندی بحروں کی آزادی اور موسیقی کے علم دونوں سے اور زیادہ فائدہ اٹھانا پڑے گا۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جدید نظم اگر جدید ذہن کی عکاسی کرنے لگی، تو یہ اور بھی مشکل ہوجائے گی، وہ غلطی پر ہیں۔ یہ مشکل سہل پسند ذہن کے لئے ہے، اس ذہن کے لئے نہیں، جو ایک طرف اپنے تہذیبی سرمایے سے واقف ہے، دوسری طرف جدید علمی دنیا کے کارناموں سے بھی۔ جدید شاعری، مشکل اور مخصوص ہوتی ہے، تو وہ ایک محدود طبقے کی ذہنی تفریح یا اس کی الجھنوں اور نفسیاتی گرہوں کی طلسم بندی بن کے رہ جاتی ہے۔ یہ وہ منزل ہے جب شاعر سماج سے گھبرا کر اس کا حلقہ توڑ دیتا ہے اور اپنی ذات کو کائنات سمجھنے لگتا ہے۔ اردو شاعری کو نئے سرے سے کائنات کے اس حلقے میں داخل ہونا ہے جس میں سات میل گہرا سمندر اور لاکھوں کروڑوں میل دور ستارے شامل ہیں اور جن میں انسان آج ہلاکت کلی اور نجاتِ ابدی کے دوراہے پر کھڑا ہے۔
اسے زبان سے ایک نیا عشق پیدا کرنا ہے، تاکہ وہ اس کی ہر ادا کو سمجھ سکے۔ اسے اپنی سرزمین پر اپنی جگہ بنانی ہے اور اپنی سرزمین کے ہر رنگ و آہنگ سے لو لگانا ہے۔ اسے قدما کے تجربات سے فائدہ اٹھانا ہے۔ اسے میرؔ کے ذہن کی تقلید نہیں کرنا ہے، بلکہ میرؔ کو بھی جذب کرنا ہے۔ اسے سیاست، مذہب، جنس کی روح تک پہنچنا ہے اور انسانیت پر وہ اعتقاد اور اپنے مشن پروہ اعتماد پیدا کرنا ہے جو نشہ بھی ہے، نجات بھی۔ غالبؔ اور اقبالؔ سے ہم بہت کچھ لے چکے۔ میرؔ، نظیرؔ، حالیؔ سے ابھی بہت کچھ لے سکتے ہیں اور ہندی شاعری کے اس حصے سے بھی جس کے اسرار میں ہماری تہذیب اور تاریخ کے کتنے ہی جگمگاتے مرقعے پوشیدہ ہیں۔ اس ضرورت کا احساس تو ہے، مگر یہ ابھی عام نہیں ہوا۔ اس لئے ہمیں اپنے اپنے گوشۂ عافیت کو چھوڑ کر اب میدان میں نکلنا چاہیے۔
کھلی ہوا میں کچھ چراغ بجھ جاتے ہیں، مگر کچھ اور نئے جلتے بھی ہیں۔ ہماری زبان اتنی جاندار ہے کہ وہ اب تک جس طرح مہذب رندی کی ترجمانی کرتی رہی ہے، اسی طرح تہذیب کے ہر رقص کی بھی ترجمانی کرسکے گی۔ اس رقص کی طرف میلان شروع ہو گیا ہے۔ اب ہمارا فرض یہ ہے کہ اسے اور آگے بڑھائیں، حتیٰ کہ یہ ہمارا نمائندہ انداز بن جائے۔