نظم جہاں کو زیر و زبر دیکھتا ہوں میں

نظم جہاں کو زیر و زبر دیکھتا ہوں میں
مادہ کے اختیار میں نر دیکھتا ہوں میں


آنکھوں پہ بن رہی ہے اگر دیکھتا ہوں میں
یہ جانتا ہوں ان کو مگر دیکھتا ہوں میں


میں دیکھتا نہیں ہوں اگر دیکھتے ہیں وہ
وہ دیکھتے نہیں ہیں اگر دیکھتا ہوں میں


واعظ نے مجھ میں دیکھی ہے ایمان کی کمی
واعظ میں صرف دم کی کسر دیکھتا ہوں میں


اب یہ ہوئی ہے جلوہ نمائی کی انتہا
وہ سامنے ڈٹے ہیں جدھر دیکھتا ہوں میں


اللہ رے رعب و داب جنوں بھاگتا ہے وہ
جس کی طرف اٹھا کے نظر دیکھتا ہوں میں


کہتی ہے ہر گرہ کہ رہائی محال ہے
جب چونچ سے ٹٹول کے پر دیکھتا ہوں میں


جس وقت مل کے پڑھتے ہیں دونوں کتاب عشق
وہ زیر دیکھتے ہیں زبر دیکھتا ہوں میں