نظم : اعلان نامہ
مَیں لاکھ بزدل سہی مگر۔۔۔
مَیں لاکھ بزدل سہی مگر مَیں اسی قبیلے کا آدمی ہوں،
کہ جس کے بیٹوں نے
جو کہا اس پہ جان دے دی
مَیں جانتا تھا مِرے قبیلے کی خیمہ گاہیں جلائی جائیں گی اور تماشائی
رقصِ شعلہ فشاں پر اصرار ہی کریں گے
مَیں جانتا تھا مرا قبیلہ بریدہ اور بے ردا سروں کی گواہیاں
لے کے آئے گا پھر بھی لوگ انکار ہی کریں گے
سو مَیں کمین گاہِ عافیت میں چلا گیا تھا
سو مَیں اماں گاہِ مصلحت میں چلا گیا تھا
اور اب مجھے میرے شہسواروں کا خون آواز دے رہا ہے
تو نذرِ سر لے کے آ گیا ہوں
تباہ ہونے کو ایک گھر لے کے آ گیا ہوں
مَیں لاکھ بزدل سہی مگر مَیں اسی قبیلے کا آدمی ہوں!