نظر پر میری اس بت کی نظر یوں چھائی جاتی ہے

نظر پر میری اس بت کی نظر یوں چھائی جاتی ہے
کہ جیسے ٹوکری پر ٹوکری اوندھائی جاتی ہے


پلٹتی ہے مری آہ رسا یوں ان کے گھر جا کر
کوئی جادو کی ہانڈی جس طرح پلٹائی جاتی ہے


اثر ڈالا یہاں تک تیری زلفوں نے بصارت پر
کہ اب تو رات کیا دن کو رتوندی آئی جاتی ہے


حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں
تو ہفتوں کیا مہینوں کھوپڑی سہلائی جاتی ہے


بتوں پر میں اگر مائل ہوں وہ حوروں پہ مائل ہیں
جناب شیخ میں بھی یہ حماقت پائی جاتی ہے