نظر نواز نظاروں میں جی نہیں لگتا

نظر نواز نظاروں میں جی نہیں لگتا
بچھڑ کے تجھ سے بہاروں میں جی نہیں لگتا


وہ ماہتاب ہوا جب سے بدلیوں میں قید
دمکتے چاند ستاروں میں جی نہیں لگتا


ضعیف باپ جواں بیٹوں سے ہراساں ہیں
اب اس کا اپنے ہی پیاروں میں جی نہیں لگتا


سبھی کو محفل رقص و سرور ہے درکار
کسی کا درد کے ماروں میں جی نہیں لگتا


ہم اپنے گاؤں میں تنہا بھی مست رہتے تھے
یہ شہر ہے کہ ہزاروں میں جی نہیں لگتا


سب اپنے دوست ہیں کوئی کسی کا دوست نہیں
یہ جب سے جانا ہے یاروں میں جی نہیں لگتا


چلو بسائیں کسی برف زار کو شیبانؔ
اب آگ اگلتے دیاروں میں جی نہیں لگتا