نظر میں لوچ نہ ہیجان منظروں میں ہے
نظر میں لوچ نہ ہیجان منظروں میں ہے
عروش صبح ابھی شب کی چادروں میں ہے
نہ سوچ تاجوروں کا مآل کیا ہوگا
یہ دیکھ تیشہ بکف کون پتھروں میں ہے
بھڑک رہی ہیں کناروں کی بستیاں اب تک
بلا کی آگ ہمارے سمندروں میں ہے
نگار خانۂ معنی سے سرسری نہ گزر
لہو کا رنگ بھی دو چار منظروں میں ہے
سکوت سنگ کو آسائش بیاں دے دے
عجب کمال ہنر آئینہ گروں میں ہے
گلی کے موڑ پہ کس نے دیا جلایا تھا
اسی کی روشنی تاریک سے گھروں میں ہے
نگل نہ جائیں اسے بھی یہ کج کلاہ عروجؔ
ذرا سی آن جو باقی سخنوروں میں ہے