نظر میں کچھ نہ تھی پہلے کبھی توقیر مٹی کی

نظر میں کچھ نہ تھی پہلے کبھی توقیر مٹی کی
فرشتے دنگ ہیں اب دیکھ کے تقدیر مٹی کی


ہزاروں نعمتیں دیتی ہیں لیکن ضرب سہ سہ کر
خدا نے بھی بنائی ہے عجب تقدیر مٹی کی


سنائی دے گی ظالم تجھ کو تب مجبور کی آہیں
جکڑ لے گی ترے پیروں کو جب زنجیر مٹی کی


کہ جیسے پیڑ کی ہر شاخ مجھ سے بات کرتی ہے
کہ جیسے دیکھتا رہتا ہوں میں تاثیر مٹی کی


عمارت کوہ و صحرا پیڑ دریا آدمی سارے
زمیں پر بسنے والے ہیں مگر جاگیر مٹی کی


تری پوجا کریں گے لوگ اک دن دیکھنا آتشؔ
بنا کر اس نے رکھی ہے تری تصویر مٹی کی