نظر کو حال دل کا ترجماں کہنا ہی پڑتا ہے
نظر کو حال دل کا ترجماں کہنا ہی پڑتا ہے
خموشی کو بھی اک طرز بیاں کہنا ہی پڑتا ہے
جہاں ہر گام پر سجدے ٹپکتے ہیں جبینوں سے
وہاں ہر نقش پا آستاں کہنا ہی پڑتا ہے
جہاں لب کوشش اظہار مطلب کو ترستے ہیں
وہاں ہر سانس کو اک داستاں کہنا ہی پڑتا ہے
اگر قلب و نظر میں وسعتیں ہوں تیرے جلووں کی
خزاں کو بھی بہار جاوداں کہنا ہی پڑتا ہے
کہاں آسودگی دل کی کہاں افسردگی لیکن
اسیری قفس کو آشیاں کہنا ہی پڑتا ہے
ہم ان سے ماجرا اے درد دل کہتے نہیں لیکن
بہ انداز حدیث دیگراں کہنا ہی پڑتا ہے