نیا چاند

آج شب چاند خوش نما نکلا
ساری دنیا کا دل ربا نکلا
سینگ چھوٹے ہیں دو طرف نکلے
خوش نما نازک اور چمکیلے
خوش نما تھا نہ چاند ایسا کبھی
سب کو سینگوں کی روشنی بھائی
نہ بڑھے گا امید ہے پھر وہ
نہ چڑھے گا امید ہے پھر وہ
کاش منزل کی اس کے رہ پاتا
دوستوں کو بھی ساتھ لے جاتا
اس فضا سے جو پار ہوتا میں
جا کے اس پر سوار ہوتا میں
بیٹھ جاتا میں بیچ میں اس کے
دونوں ہاتھوں میں تھام لیتا سرے
اچھا سا ہوتا میرا گہوارہ
کس قدر دل فریب اور پیارا
پھر وہاں سے پکارتا تارو
راہ سے میری دور ہٹ جاؤ
تاکہ جس دم مری سواری چلے
مفت روندے نہ جاؤ پاؤں تلے
میں نہ جاؤں گا واں سے اور کہیں
صبح تک جھولتا رہوں گا وہیں
دیکھوں جاتا ہے میرا چاند کہاں
اور پڑتا ہے جا کے ماند کہاں
خوش نما کوئی آسماں سا نہیں
ٹھہرتے ہم خوشی خوشی سے وہیں
دیکھتے واں طلوع سورج کا
اس منور چراغ کا جلوا
سارے دن اس کو خوب دیکھتے ہم
شام میں پھر غروب دیکھتے ہم
بیٹھ کر پھر دھنک پہ گھر آتے
واں کے قصوں سے سب کو تڑپاتے