نوائے شوق میں شورش بھی ہے قرار بھی ہے
نوائے شوق میں شورش بھی ہے قرار بھی ہے
خرد کا پاس بھی خوابوں کا کاروبار بھی ہے
ہزار بار بہاروں نے دکھ دیا مجھ کو
نہ جانے کیا کیا ہے بہاروں کا انتظار بھی ہے
جہاں میں ہو گئی نا حق تری جفا بدنام
کچھ اہل شوق کو دار و رسن سے پیار بھی ہے
مرے لہو میں اب اتنا بھی رنگ کیا ہوتا
طراز شوق میں عکس رخ نگار بھی ہے
مرے سفینے کو ساحل کی جستجو ہی نہیں
ستم یہ ہے کسی طوفاں کا انتظار بھی ہے
چمن ہی اک نہیں آئینہ میری مستی کا
گواہ جوش جنوں کی زبان خار بھی ہے
غرور عشق غرور وفا غرور نظر
سرورؔ تیرے گناہوں کا کچھ شمار بھی ہے