بچوں کو سوشل میڈیا کے برے اثرات سے کیسے بچایا جاسکتاہے؟
اعداد و شمار حیران کن بھی ہیں اور اس سے بڑھ کر تکلیف دہ بھی۔ بچوں اور نوجوانوں میں سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال سے دنیا بھر کے والدین پریشان ہیں۔ حال ہی میں امریکہ میں جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ٹین ایجرز یعنی 13 سے 19 سال تک کے نوجوانوں میں روزانہ سکرین کو دیے گئے وقت کی اوسط 9 گھنٹے آرہی ہے۔ یہ روزانہ کی کسی فل ٹائم نوکری کو دیے گئے وقت ، یعنی آٹھ گھنٹے ، سے بھی زیادہ ہے۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ سکرین اور اس سے بڑھ کر سوشل میڈیا پر گزرا ہوا یہ وقت ان نوجوانوں کی زندگی میں تناؤ اور بے چینی پیدا کررہا ہے۔ Monitoring the Future نامی ایک تحقیقی ادارہ کی تحقیق کے مطابق ہر وہ نوجوان جو روزانہ دو گھنٹے سے زیادہ وقت بھی سوشل میڈیا پر گزارتا ہے، وہ بے چینی anxiety کا شکار ہے۔
کامن سینس میڈیا ، جو اب ایک ویب سائٹ ہی نہیں بلکہ ایک بہترین تحقیقی ادارہ بن چکا ہے اور ہر طرح کے میڈیا یعنی انٹرنیٹ، فلم، ٹی وی اور سوشل میڈیا پر والدین کی رہنمائی کرتا ہے، کے اعداد و شمار کے مطابق انہی نوجوانوں یعنی ٹین ایجرز میں سے 50 فیصد نوجوانوں کا سیل فون اور اس کے ذریعے سوشل میڈیا کا استعمال ’لت‘ addiction کی حد تک پہنچا ہوا ہے۔ نوجوان کی یہ عمر سکول ، کالج اور یونی ورسٹی کے اعلیٰ درجات کی تعلیم کو وقت دینے اور اس میں محنت کرنے کی عمر ہے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ بہت سے نوجوان محض سوشل میڈیا کے حد سے بڑھے ہوئے استعمال کی وجہ سے اپنی تعلیم میں بہترین کارکردگی نہیں دکھا پاتے۔
ہمارے ہاں سوشل میڈیا کے استعمال کے مضر اثرات صرف ذہنی و نفسیاتی نہیں بلکہ اس سے ہماری تہذیب و ثقافت ، ہمارے دینی و اخلاقی اقدار اور ہمارا خاندانی نظام سب داؤ پر لگا نظر آرہا ہے۔ آئے دن ایسے واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں جن کی اذیت اور تکلیف والدین ہی محسوس کرسکتے ہیں۔ والدین کی ایک بہت بڑی تعداد ان واقعات پر پریشان بھی رہتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان مسائل کا حل کیا ہے۔ دنیا بھر میں ماہرین اس حوالے سے چند حل تجویز کرتے ہیں اور ان کے مطابق یہ اقدامات بہت پہلے کرلینے چاہییں یعنی جب آپ کا بچہ اس قابل ہو کہ وہ سوشل میڈیا کو استعمال کرنا شروع کرے تب سے ہی ان پابندیوں اور احتیاطوں کو بروئے کار لانا ضروری ہے۔
متبادلات تلاش کیجیے اور فراہم کیجیے:
سوشل میڈیا کو مثبت یا منفی استعمال کرنے کا سوال اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس پر دیا گیا وقت کئی دیگر اچھے کاموں پر صرف ہوسکتا ہے ۔ مثال کے طور پر کوئی ورزش یا کھیل کود جو بچوں کو جسمانی لحاظ سے مضبوط بناتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے 13 سے 20 سال کے نوجوانوں کی سرگرمیوں پر ایک سروے کیا گیا تو معلوم ہوا کہ صرف 10فیصد نوجوان کسی کھیل کو مستقل کھیلتے ہیں ، یعنی نوے فیصد نوجوان طبقہ کھیل جیسی نعمت سے محروم ہے اور اپنا وقت انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر برباد کررہا ہے۔ سوشل میڈیا کی بجائے براہ راست کوئی معلوماتی پروگرام دیکھنا مفید ہوگا اور سب سے بڑھ کر اگر آپ نوجوان بچوں کو کسی اچھے کتاب کے مطالعہ پر آمادہ کرسکیں تو اس مطالعہ کا حاصل ساری زندگی اس کا ساتھ نبھائے گا۔
بچوں کو قائل کیجیے کہ انہیں اپنے وقت کو تقسیم کرکے مطالعہ، کھیل اور اپنی صحت کے لیے بھی وقت دینا چاہیے۔ اسی طرح تعلیمی حوالہ بھی سکول ، کالج کی اسائنمنٹس پر کام کے لیے وقت درکار ہے جو ترجیحاً انہیں دینا چاہیے۔
اسی طرح کوشش کرکے نوجوانوں کو مختلف سماجی سرگرمیوں میں شامل کیجیے۔ کوئی اچھا کام جسے وہ زندگی کے مقصد کے طور پر اپنا سکیں۔ وطن عزیز میں بہت سے رفاہی ادارے دکھی لوگوں کی مدد اور معاونت کے لیے کام کررہے ہیں ۔ان میں سے کسی ادارے میں رضاکار کے طور پر خدمات انجام دی جائیں۔ تعلیم، صحت، عمومی فلاح و بہبود جس شعبہ میں بھی نوجوان کو دلچسپی ہو ، اسے منسلک ہونے دیجیے ۔ اس سے بچے سوشل میڈیا کو بہت زیادہ وقت دینے سے بھی بچ جائیں گے اور انہیں ایک اچھی مثبت سرگرمی متبادل کے طور پر بھی دستیاب ہوگی۔
سوشل میڈیا پر بہت ایکٹو نوجوان یہ دلیل دیتے نظر آتے ہیں کہ وہ مثبت اور تعمیر ی چیزیں شیئر کرتے ہیں، یہ درست ہے لیکن مثبت اور تعمیر ی چیزیں شیئر کرنے اور سیکھنے کا یہ واحد ذریعہ نہیں۔ صدیوں سے ہماری خاندانی اور اسلامی روایت میں نوجوان اپنے بزرگوں کی صحبت میں وقت گزارتے ، ان کی زندگیوں سے اپنے آئیڈیلز تعمیر کرتے اور ان کی خوب صورت باتوں سے اقوال زریں اخذ کرتے رہے ہیں۔ اسی روایت کو ایک مرتبہ پھر زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے قریب ترین ایسے بزرگوں کو تلاش کیجیے جو صاحب علم بھی ہوں اور صاحب بصیرت بھی۔ نوجوانوں کو لے کر ان کی صحبت میں خود بھی بیٹھیے۔ اس سے ان کی زندگی کو مثبت جہت ملےگی۔