نوحہ
زندگی بہتی رہی آب رواں کی مانند
کبھی ہلکی سی کبھی خواب گراں کی مانند
وقت کی لہروں پے معصوم سا چہرہ ابھرا
اور پھر ہو گیا گم وہم و گماں کی مانند
دل ربا چہرے پہ کیوں چھایا قضا کا سایا
کیوں بہاروں کا ہوا رنگ خزاں کے مانند
ہو گئی کیوں وہ چہکتی ہوئی بلبل خاموش
کیوں گرا پھول جو گلشن میں تھا جاں کی مانند
رند جھوم اٹھتے تھے مستان ادا پر جس کی
اب یہاں کون ہے اس پیر مغاں کی مانند
خاک اڑتی ہے جہاں قہقہے ہوتے تھے بلند
نغمۂ بزم ہے اب آہ و فغاں کی مانند
گرمیٔ دل تھی وہی اس کی وہی ذوق طلب
ڈھلتے سایوں میں وہ تھا مرد جواں کی مانند
عمر بھر یاد چتر ہم کو رلائے گی حبیبؔ
غم ستائے گی سدا درد نہاں کی مانند