نیچر
اچھے لفظ بھی جب بری نیت سے استعمال کیے جاویں تو برے ہو جاتے ہیں۔ آپ بڑے عالم ہیں، کہنے والے کی نیت سے بڑے جاہل کے معنوں میں ہو جاتا ہے مگر ہم کیوں کسی کی نیت کو بد قرار دیں۔ ہم کو تعجب ہے کہ وہ لوگ جو ائمۂ اربعہ کے مذہب پر نہیں چلتے، غیر مقلد یا لامذہب کہنے کو گالی کیوں سمجھتے ہیں۔ 1 حالانکہ در حقیقت وہ ائمہ اربعہ کی تقلید نہیں کرتے اور ان کے مذہب پر نہیں چلتے۔ پھر سچ بات سے کیوں برا مانتے ہیں اور اوروں کی نیت کو کیوں برائی پر لے جاتے ہیں۔ وہی لوگ اور ان کے چھوٹے بڑے بھائی ہم کو ’’حضرات نیچریہ‘‘ کہتے ہیں۔ ہم تو نہ ان کے کہنے سے برا مانتے ہیں نہ ان کی نیت میں برائی لگاتے ہیں۔ بلکہ ان کا احسان مانتے ہیں کہ سچ بات کہتے ہیں اور جس مذہب کو خدا نے اپنامذہب بتایا ہے، نہایت نیک نیتی سے ہم کو اسی مذہب کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ خدا کہتا ہے، فأقم و جھک للدین حنیفاً فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیھا لا تبدیل لخلق اللہ۔ ذلک الدین القیم ولکن أکثر الناس لا یعلمون۔ (سورۃ الروم۔) ’’سیدھا کر اپنا منہ خالص دین کے لیے جو نیچر خدا کا ہے جس پر لوگوں کو بنایا ہے، خدا کی پیدائش میں کچھ تبدیل نہیں ہے۔ یہی مستحکم دین ہے و لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘شاہ ولی اللہ صاحب نے، صاحب تفسیر ابن عبا س نے ’’فطرۃ اللہ‘‘ کا ترجمہ دین خدا کا کیا ہے، پس جو ہمارے خدا کا مذہب ہے وہی ہمارا مذہب ہے۔ خدا نہ ہندو ہے، نہ عرفی مسلمان، نہ مقلد، نہ لا مذہب، نہ یہودی، نہ عیسائی۔ وہ تو پکا چھٹا ہوا نیچری ہے۔ وہ خود اپنے کو نیچری کہتا ہے۔ پھر اگر ہم بھی نیچری ہیں تو اس سے زیادہ ہم کو کیا فخر ہے۔ ’’لا تبدیل لخلق اللہ‘‘ کی تفسیر میں قاضی بیضاوی نے لکھا ہے ’’لا یقدراحد ان یغیرہ‘‘ یعنی کسی کا مقدور نہیں ہے کہ اس کو بدل دے۔ پس یہ خدا کا دین ضرور پھیلےگا۔ نہ میرے روکنے سے رکے نہ تمہارے روکنے سے۔ نہ نور الآفاق کی تحریریں اس کو مٹا سکتیں، نہ اشاعت السنہ کی تحریریں اس کو مٹا سکیں گی اور نہ تیرہویں صدی اس کو نقصان پہنچائے گی۔ نیچر خدا کا دین ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔مذہب اسلام ان بندشوں کو توڑنے کو آیا تھا جو فطرت یا نیچر پر لوگوں نے باندھی تھیں۔ وہ کوئی نئی بندش نیچر یا خدا کے دین پر باندھنے نہیں آیا۔ اس نے قیدیوں کی بیڑیوں کو توڑا ہے اور کوئی نئی بیڑی یا ہتھکڑی نہیں ڈالی ہے۔ اس نے پورا حق آزادی کا فطرت، نیچر کے مطابق لوگوں کو دیا ہے اور اسی کو ان کا دین بلکہ خدا کا دین بتا یا ہے۔ پس اوپر کی بندشوں کو توڑنے دو اور ٹھیٹ مذہب اسلام کو، نیچر کو، خدا کے دین کو، خدا کے مذہب کو چمکنے دو۔ وہ چمکےگا اور کسی کے چھپائے سے نہیں چھپنے کا۔کسی نے خدا کو اور کسی طرح نہیں جانا۔ اگر جانا تو نیچر ہی سے جانا۔ موسیٰ نے ربّ ارنی کے جواب میں کیا سنا۔ لن ترانی ولکن انظر الی الجبل، پہاڑ پر کیا تھا؟ وہی نیچر قانون قدرت کا نمونہ تھا۔ خود خدا بھی اپنے آپ کو کچھ نہیں بتلا سکا۔ اور جو بتلایا تو نیچر ہی کو بتلایا۔ بولا کہ جس نے زمین کو تمہارے لیے بچھونا اور آسمان کو ڈیرہ بنایا اور آسمان سے پانی برسایا۔ جس نے تمہارے کھانے کے لیے طرح طرح کے میووں کو اگایا، وہی خدا ہے۔ بولا کہ ’’سمجھداروں کے لیے آسمان و زمین کے پیدا کرنے، رات دن کے مختلف ہونے، کشتی کے دریا میں چلنے، آسمان سے پانی برسنے، زمین سے مر کر زندہ ہونے، اس پر چلنے والوں کے پھیلنے، ہواؤں کے ادھر ادھر ہونے، بادلوں کے آسمان وزمین میں ادھر ہونے ہی میں نشانیاں ہیں۔‘‘جب پوچھو کہ تو کون ہے؟ اس کا جواب کچھ نہ دے اور اپنے قانون قدرت کو بتادے اور بولے کہ وہ جو رات کو دن میں اور دن کو رات میں ادل بدل کر دیتا ہے۔ زندہ سے مردہ، مردہ سے زندہ نکالتا ہے۔ وہ، وہ ہے کہ جس نے تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا، تمہارے لیے جوڑا بنایا، ان سے عورت مرد پھیلا دیے۔ خدا کون ہے؟ بیجوں اور گٹھلیوں کو پھوڑ کر اس میں سے بڑی ٹہنی اگانے والا، رات کو پھاڑ کر دن نکالنے والا، رات کو آرام سے سونے کے لیے بنانے والا، چاند سورج سے حساب کا اندازہ سکھانے والا، آسمان سے مینہ برسا کر ہر چیز کو اور ہری ہری گھانس کو اگانے والا، ان میں دانوں سے بھری ہوئی بالیں، کھجوروں میں لدے ہوئے زمین پر جھکے ہوئے خوشے پیدا کرنے والا، انگور، زیتون اور انار کے باغ لگانے والا کہ جب وہ پھلتے ہیں اور پکتے ہیں تو دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں، یہ خدا ہے جو آنکھوں سے دکھائی نہیں دے سکتا۔خدا وہی تو ہے جو مینہ سے پہلے ٹھنڈی ہوا لاتا ہے، جو مینہ آنے کی خوشخبری دیتی ہے۔ جب وہ بادلوں کے دَل کو ہنکا لاتی ہے تو مردہ زمین پر برساتی ہے جس میں ہر طرح کے میوے نکلتے ہیں۔ کیا آسمان وزمین میں اور ہر چیز میں جس کو خدا نے پیدا کیا، اس کی قدرت، بادشاہت، سطوت کو نہیں دیکھتے؟ پھر اس کے بعد کون سی بات ہے جس پر ایمان لاؤگے۔کون آسمان سے رزق پہنچاتا ہے؟ کون زمین سے رزق اگاتا ہے؟ کون کان اور آنکھ کا مالک ہے۔ کون مردہ میں سے زندہ اور زندہ میں سے مردہ نکالتا ہے؟ کون ان تمام کاموں کو سنوارے رکھتا ہے؟ تم بھی کہہ اٹھوگے کہ اللہ۔ بے شک وہی خدا ہے جس نے آسمانوں کو بغیر دکھائی دیتے ستونوں کے اونچا کر رکھا ہے، چاند سورج کو اپنا تابع دار کیا ہے، زمین کو پھیلایا ہے، پہاڑوں کو اس میں بنایا ہے، نہروں کو ا س میں بہایا ہے، ہر قسم کے میووں کو اس میں اگایا ہے، دن کو رات سے ڈھانکا ہے، ایک زمین میں طرح طرح کے ٹکڑوں کو بنایا ہے، کہیں انگور کے باغ ہیں، کہیں کھجوروں کے کھیت، کسی میں گھنی شاخیں ہیں کسی میں چھدری، کھانے میں ایک دوسرے سے مزیدار ہے۔ سمجھ داروں کے لیے خدا کے ہونے کی اسی میں تو نشانیاں ہیں۔وہی تو خدا ہے جو بجلی کی چمک سے ڈراتا ہے اور مینہ سے لالچ دلاتا ہے۔ بھاری بھاری بادل اٹھاتا ہے، رعد سے تسبیح پڑھواتا ہے، جس پر چاہتا ہے اس پر بجلی گرا تا ہے اور پھر خدا پر جھگڑا کرتے ہو۔ آسمان و زمین کو ٹھیک پیدا کیا، نطفہ سے آدمی بنایا، چوپاؤں کو تمہارے لیے پیدا کیا، ان سے فائدہ اٹھاتے ہو، ان کی پوستینیں پہنتے ہو، ان کا گوشت کھاتے ہو، جب صبح کو چرنے جاتے ہیں اور شام کو چر کر آتے ہیں تو ان سے تمہاری شا ن وشوکت معلوم ہوتی ہے، ایک شہر سے دوسرے شہر کو تمہارا اسباب پہنچاتے دیتے ہیں، گھوڑوں اور خچر اور گدھے تمہاری سواری کے لیے ہیں۔ آسمان سے پانی برساتا ہے جس کو تم پیتے ہو، درخت سینچے جاتے ہیں، کھیتی اور زیتون اور کھجور اور ہر قسم کے پھل پیدا ہوتے ہیں، چاند سورج ستارے سب تم کو کام دیتے ہیں، رنگ برنگ کی چیزیں زمین سے پیدا ہوتی ہیں۔وہی تو خدا ہے جس نے تمہارے لیے مچھلیوں کا مزے دار گوشت کھانے کو اور بے بہا موتی نکال کر زیور بنانے کو دریا پیدا کیا۔ تم دیکھتے ہو کہ کس طرح کشتیاں اس کا پانی چیرتی ہوئی چلتی ہیں۔ زمین کے مرکز ثقل پر تلے رہنے کو پہاڑ بنائے اور تمہارے چلنے کو نہریں اور راستے نکالے، نشان بنائے کہ ستاروں کو دیکھ کر دیکھ کر تم چلتے ہو۔ بھینسوں اور گایوں پر غور کرو، ان کے پیٹ میں خون اور گوبر کے سوا کیا ہے۔ مگر وہ کیا مزے دار دودھ پلاتی ہیں، کھجوروں اور انگوروں سے کس طرح پیٹ بھرتے ہو اور نشہ دار شرابیں بناتے ہو۔ خدا ہی نے مکھی کو سکھایا کہ پہاڑوں میں، درختوں میں، اونچے مکانوں میں اپنے گھر بنائے اور ہر قسم کے میووں کو چوسے اور پھر اپنے پیٹ میں سے رنگ برنگ کے شہد نکالے او ر خدا ہی نے تم کو بھی پیدا کیا ہے پھر تم کو مار ڈالےگا۔ تم میں سے کسی کو نہایت بڈھا کر دیتا ہے۔خدا نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹ سے پیدا کیا، کان دیے، آنکھیں دیں، دل دیا تاکہ تم شکر کرو۔ پرند جانوروں کو نہیں دیکھتے جو آکاش میں ادھر تھمے ہوئے ہیں کوئی ان کو نہیں تھامتا بجز خدا کے۔ اسی میں تو ایمان والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ خدا ہی نے تمہارے رہنے کے گھر اور جانوروں کی کھال کے ڈیرے، ان کی اون سے اور ان کے بالوں سے اسباب، گرمی سے بچنے، لڑائی میں زخموں سے محفوظ رہنے کا لباس بنایا ہے۔ اس پر بھی اگر وہ پھر جاویں تو اے پیغمبر الہٰی (یعنی نیچر کے) پیغاموں کا پہنچا دینا تیرا کام ہے۔خدا ہی حباب سے بادلوں کو ہنکاتا ہے، پھر ان کو اکٹھا کرتا ہے، پھر تہ بہ تہ جماتا ہے، پھر ان میں سے بوندیں گرتی ہیں، آسمانی کالے پہاڑوں میں سے سفید سفید اولے پڑتے ہیں، بجلی چمک کر آنکھوں میں چکا چوند کر دیتی ہے، خدا ہی رات کو دن کردیتا ہے، انہی باتوں میں عقل مندوں کے لیے نصیحت ہے۔خدا کی یہ نشانی ہے کہ تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر تم چلتے پھرتے آدمی ہو۔ خدا کی یہ نشانی ہے کہ تمہیں میں سے تمہارا جوڑا بنایا اور ان میں محبت ڈالی۔ خدا کی یہ نشانی ہے کہ آسمان پیدا کیے، تمہاری بولیاں اور تمہارے رنگ جدا جدا بنائے۔ خدا کی یہ نشانی ہے کہ رات کو تم سو رہتے ہو اور دن کو روزی ڈھونڈتے پھرتے ہو۔ خدا نے آسمان سے مینہ برسایا، پھر اس سے رنگ برنگ کے میوے پیدا کیے۔ پہاڑ میں سے سفید، سرخ، چتکبرے، کالے، بھنور، پتھر کے ٹکڑے نکالے، آدمیوں اور جانوروں کے بھی طرح طرح کے رنگ بنائے۔فرعون نے موسیٰ سے پوچھا کہ خدا کون ہے؟ موسیٰ نے نیچر ہی سے سمجھایا اور کہا کہ آسمانوں کا اور زمین کاا ور جو کچھ کہ ان میں ہے ان کا خدا۔ فرعون نے اپنے ہالی موالی سے کہا کہ تم سنتے ہو کہ کیا کہتا ہے۔ موسیٰ نے کہا کہ تمہارا اور تمہارے باپ دادا کا خدا۔ فرعون بولا کہ یہ پیغمبر جس کو ہمارے پاس بھیجا ہے یہ تو کچھ دیوانہ ہے۔ موسیٰ پر کیا موقوف ہے۔ جتنے پیغمبر گزرے ہیں سب نیچری تھے۔ خدا خود نیچری ہے۔ جب لوگوں نے نیچرکے قوانین کو چھوڑا تب ہی اس نے پیغمبر بھیجا۔ جو پیغمبر آیا اس نے کیا کیا۔ پھر لوگوں کو نیچر کا رستہ بتایا اور جتنا بگاڑا تھا اتنے کو پھر سنوارا، جب موسیٰ سے نیچر لسٹ کو لوگوں نے مجنون کہا تو پھر ہم کس گنتی میں ہیں۔ ہم کو جو چاہیں کہیں۔خدا نے ہم کو، ہماری جان کو، ہماری سمجھ کو، ہمارے قیاس کو، ہمارے دل ودماغ کو، ہمارے روئیں روئیں کو نیچر سے جکڑ دیا ہے، ہمارے چاروں طرف نیچر ہی نیچر پھیلا دیا ہے، نیچر ہی کو ہم دیکھتے ہیں، نیچر ہی کو ہم سمجھتے ہیں، نیچر سے خدا کو پہچانتے ہیں، پھر نیچری نہ ہوں تو کون ہوں۔ کوئی کیسا ہی مسلمان ہو ہم تو بلاشبہ فطرتی مسلمان ہیں، ہمارے باپ دادا بھی کچھ کرشمہ و کرامات دیکھ کر ایمان نہیں لائے تھے، وہ بھی فطرتی مسلمان تھے۔ ہمارا ہی دادا جس کے دل میں فطرتی ایمان نے جب جوش کیا تو گھبرا گیا اور نیچر کو، فطرت کو، خدا کے دین کو ڈھونڈنے لگا۔ خدا ہی نے اس کو ’’ملکوت السموات الارض‘‘ دکھلا دی۔ وہ ملکوت کیا تھی۔ وہی نیچر، فطرت، خدا کا دین تھا۔رات کے اندھیرے میں ایک روشن ستارہ نیچر کا پرکالہ دیکھا، جانا کہ یہی خدا ہے، چاند کو نور کا ٹکڑا پایا اسی پر خدا ہونے کا دھوکہ کھایا، سورج کو سب سے زیادہ چمکیلا دیکھا اسی پر خدا ہونے کا گمان کیا۔ مگر جب دیکھا کہ یہ سب تو ڈوب جاتے ہیں تو بول اٹھا کہ میں اس پر ایمان لایا جس نے فطرت نیچر کو بنایا اور پکا فطرتی مسلمان ہوا۔ پس جب ہمارا دادا ابراہیم نیچری تھا تو ہم اس کی ناخلف اولاد نہیں ہیں جو نیچری نہ ہوں۔ نیچر ہمارے خدا کا، ہمارے باپ دادا کا تمغہ ہے، ہم نیچری، ہمارا خدا نیچری، ہمارے باپ دادا نیچری۔ اگر کوئی اس مقدس لفظ کو بری نیت سے استعمال کرتا ہے، وہ جانے اور اس کا دین ایمان۔ وہ صرف ہم ہی کو نہیں کہتا بلکہ خدا کو، پیغمبر کو، ابراہیم کو، سب کو کہتا ہے۔ پھر لوگوں کو جو وہ چاہیں کہنے دو۔ ہم کو ان کی نسبت بھی حسن ظن رکھنے دو۔ ان کو ان کی راہ پر، ہم کو اپنی راہ پر، اپنے خدا کی راہ پر، اپنے باپ دادا کی راہ پر، پیغمبروں کی راہ پر، رسولوں کی راہ پر، آزر کے بیٹے ابراہیم کی راہ پر چلنے دو۔بیتتو و طوبیٰ و ما و قامتِ یارفکرِ ہر کس بہ قدر ہمتِ اوستحاشیہ(۱) جناب محمد حسین صاحب (بٹالوی) نے رسالہ ’اشاعت السنہ‘ لکھا ہے کہ عالمین بالحدیث لفظ غیر مقلد یا لا مذہب کہنے کو گالی سمجھتے ہیں۔