نثری نظم یا نثر میں شاعری

شاعر کی حیثیت سے اپنے آپ کو دہرانا اور نقاد کی حیثیت سے اپنا حوالہ آپ دینا مجھے انتہائی قبیح معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت بات ہی ایسی آ پڑی ہے کہ مجھے اپنی کہی ہوئی باتیں دہرانی پڑ رہی ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ میں نثری نظم کا مخالف ہوں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ان کی خدمت میں اپنی بعض تحریروں کے اقتباسات پیش کروں۔ پہلی تحریر ۱۹۶۲ ءکی ہے۔ یعنی بیس سال سے کچھ کم کی۔ اسے ’لفظ ومعنی‘ کے صفحات ۱۷، ۱۸، ۱۹ او ر ۲۰ پر ملاحظہ کیجیے،’’اگرچہ یہ درست ہے کہ کبھی کبھی نثر نظم بن سکتی ہے، لیکن نظم کبھی نثر نہیں بن سکتی۔ اس تبدیل جنس کا اصول دو پہلو نہیں، بلکہ یک راہ ہے۔ ٹیگور کی ’گیتا نجلی‘ نثرمیں ہے لیکن نظم ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ نظم گائی جا سکے لیکن یہ ضروری ہے کہ بہ آواز بلند پڑھی جا سکے۔۔۔ اچھی نثر بولی جا سکتی ہے، اچھی نظم پڑھی جا سکتی ہے۔۔۔ نظم کی سب سے بڑی پہچان اس کی زبان ہوتی ہے۔‘‘ دوسری تحریر ۱۹۶۷ء کی ہے۔ اسے ’لفظ ومعنی‘کے صفحات ۷۴ اور ۷۵ پر ملاحظہ کیجیے،’’یہ تکنیک (مختلف الوزن ٹکڑوں کو ایک ہی نظم یا شعر میں استعمال کرنا) اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب پوری نظم کی ترتیب الفاظ نثر کی طرح فطری ہو اور سادہ ہو۔۔۔ نظم منثور اور Speech Rhythm کا آج کل ہمارے یہاں اکثر تذکرہ ہوتا ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ نظم منثور یا Speech Rhythm میں شاعری کی تکنیک وتعریف اگر کوئی ہو سکتی ہے تو وہی جو میں بیان کر رہا ہوں۔ جب تک ہم عروض کی بےجا بندشوں سے اپنے کانوں کو آزاد نہ کر لیں Speech Rhythm میں نظم کہنا تو بعد کی بات ہے، اپنی شاعری کے موجودہ ساکن وجامد آہنگوں کے حجرۂ ہفت بلا سے ہی نکل نہ پائیں گے۔۔۔ نظم ونثر کا امتیاز عروض کی حد فاصل سے نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘ تیسری تحریر ۱۹۷۳ کی ہے۔ اسے آپ ’شعر غیر شعر اور نثر‘ کے صفحات ۴۴ اور ۴۵ پر ملاحظہ فرمائیے،’’نثری نظم۔۔۔ میں شاعری کی پہلی پہچان موجود ہوتی ہے۔ شاعری کی جن نشانیوں کا ذکر میں بعد میں کروں گا، یعنی ابہام، الفاظ کا جدلیاتی استعمال، نثری نظم ان سے بھی عاری نہیں ہوتی۔۔۔ اگرچہ رباعی کے چاروں مصرعے مختلف الوزن ہو سکتے ہیں لیکن ان میں ایک ہم آہنگی ہوتی ہے جو التزام کا بدل ہوتی ہے۔ بعینہ یہی بات نثری نظم میں پائی جاتی ہے۔۔۔ اس طرح نثری نظم میں شاعری کے دوسرے خواص کے ساتھ موزونیت بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا اسے نثری نظم کہنا ایک طرح کا قول محال استعمال کرنا ہے، اسے نظم ہی کہنا چاہیے۔‘‘ میں ان خیالات پراب بھی کم وبیش قائم ہوں۔ ان سے آپ کو اتفا ق ہو یا نہ ہو، لیکن آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ نثری نظم کے ’’مخالف‘‘ ہیں۔ لہٰذا کشور ناہید کا یہ خیال کہ میں نے لاہور میں انیس ناگی اور کشور ناہید کی نثری نظموں کی تعریف کرکے ’’منافقت‘‘ کی تھی، درست نہیں ہے۔ لیکن یہ درست ہے کہ بہ حیثیت ایک صنف، میں نثری نظم کے بارے میں بہت زیادہ پرجوش نہیں ہوں۔ اور جوش کی اس کمی کی وجوہ نظریاتی بھی ہیں اور تاریخی بھی۔ دونوں کا تعلق مغربی نثری نظموں اور اردو کی نثری نظموں سے ہے۔ اس لیے بات اگر طویل ہو جائے تو کچھ عیب نہیں۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ نثری نظموں کا چلن اردو میں کچھ اتنا نیا اور ایسا انوکھا نہیں کہ اس پر اتنی بحث کی جائے۔ چلن سے میری مراد یہ نہیں کہ نثری نظم ایک صنف کی حیثیت سے اردو میں قائم ہو چکی ہے۔ (اگر ہو چکی ہوتی، یا ہو سکتی تو اس مضمون کی چنداں ضرورت نہ تھی۔) چلن سے میری مرادیہ ہے کہ نثری نظمیں اردو میں بہت عرصے سے لکھی جا رہی ہیں۔ کوئی سات آٹھ سال ہوئے ڈاکٹر محمد حسن نے اپنی بعض بہت کم زور نثری نظمیں ایک رسالے میں ایک نوٹ کے ساتھ شائع کرائی تھیں جس کا مضمر لب لباب یہ تھا کہ انہوں نے نثر میں نظمیں لکھ کر کوئی ایسا ہیئتی تجربہ کیا ہے جو محض اپنے انوکھے پن کے باعث رہتی دنیا تک قائم رہےگا۔واقعہ یہ ہے (جسے وہ بالکل نظر انداز کر گئے) کہ خود سجاد ظہیر کا مجموعہ ’’پگھلا نیلم‘‘ جو نثری نظموں پر مشتمل ہے، ۱۹۶۴ میں چھپ چکا تھا۔ (یہ اور بات ہے کہ ان نظموں کے بعض ٹکڑے غیرشعوری طور پر روایتی عروض پر موزوں ہو گئے ہیں، اسی لیے میں نے لکھا تھا کہ ہم لوگوں کو چاہیے کہ اپنے کانوں کو عروض کی بےجا بندشوں سے آزاد کریں، تب ہی نثری نظم ممکن ہے۔ ) لیکن اردو میں نثری نظموں کا وجود صرف پندرہ سولہ سال پرانا نہیں۔ پچاس برس سے زیادہ ہوئے مولوی عبدالرحمن نے اپنی کتاب ’’مرآۃ الشعر‘‘ میں لکھا تھا،’’انشائے لطیف، اسی کو آج کل جدت پسند تقلیداً شعر منثور کہتے ہیں۔۔۔ میں اس کو شاعرانہ نثر کہتاہوں شعر ماننے کے لیے تیار نہیں۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ نصف صدی پہلے بھی نثری نظم اس حد تک متعارف ہو چکی تھی کہ مولوی عبدالرحمن جیسے قدامت پسند شخص کو بھی اس کا تذکرہ کرنا پڑا۔ نیاز فتح پوری ’’گیتا نجلی‘‘ کا نثری ترجمہ ’’عرض نغمہ‘‘ کے نام سے ۱۹۱۲ میں کر چکے تھے۔ میر ناصر علی ’’خیالات پریشاں‘‘ کے عنوان سے ایسی تحریریں ۱۹۱۲ سے بھی پہلے شائع کرا چکے تھے جن پر نثری نظم کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ جوش صاحب کے پہلے مجموعے ’’روح ادب‘‘ (۱۹۲۰) میں نثری نظمیں شامل ہیں۔ اس طرح کی چھوٹی بڑی مثالیں بہت ہیں۔اس طرز کے مختلف نام بھی رکھے گئے، ادبی شاہ پارے، ادب لطیف، انشائے لطیف، شاعرانہ نثر، شعر منثور وغیرہ (وزیر آغا نے جو نام تجویز کیا ہے، یعنی ’’نثر لطیف‘‘ اس میں کوئی نظریاتی جدت نہیں، یہ ادب لطیف اور انشائے لطیف وغیرہ اصطلاحوں کی نئی شکل ہے اور ان تمام اصطلاحوں میں لفظ ’’لطیف‘‘ انتہائی گم راہ کن ہے کیونکہ اگر ادب لطیف، نثر لطیف، یا انشائے لطیف کوئی چیز ہے تو ادب کثیف، انشائے کثیف اور نثر کثیف بھی کوئی چیز ہوگی۔ ادب یاانشا کی حد تک تو کثیف کا تصور پھر بھی سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن نثر کیوں کر کثیف ہو سکتی ہے، یہ بات میری سمجھ کے باہر ہے۔ )بہرحال بنیادی بات یہ ہے کہ جس چیز سے ہم پچھلی چھ سات دہائیوں سے آشنا ہیں، اس کے بارے میں اچانک کوئی تنازع فرض کر لینا یا اسے متنازعہ فیہ بنانے کی کوشش کرنا اور وہ بھی اس نہج سے کہ یہ نئی اور اچھی یا نئی مگر اچھی چیز ہے کہ نہیں، ہمارے نقادوں اور شعرا میں تاریخی علم کی کمی کی دلیل سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس وقت تو جو سوال حل کرنے کا تھا وہ تویہ تھا کہ آیا نثری نظم ہمارے ادب میں ایک صنف کی حیثیت سے قائم ہو چکی ہے کہ نہیں۔ اگر نہیں، تو اس کے اسباب کیا ہیں اور اس کے آئندہ قیام کے امکانات کیا ہیں؟ میں اسی سوال پر بحث کروں گا۔ میرا مختصر جواب یہ ہے کہ نثری نظم ہمارے ادب میں ایک صنف کی حیثیت سے قائم نہیں ہو سکی ہے۔ اس کے اسباب ہماری زبان کے ان اصناف میں پوشیدہ ہیں جو پہلے سے رائج ہیں اور اس کے آئندہ قیام کے امکانات بہ ظاہر روشن نہیں ہیں۔مجھے معلوم ہے کہ کشور ناہید اس بیان کو پڑھ کر مٹھیاں بھینچیں گی اور کہیں گی کہ آخر تم ثابت ہوئے نہ منافق! اگر اس صنف سخن کا ابھی انعقاد ہی نہیں ہوا اور اگر اس کا آئندہ انعقاد بھی مشکو ک ہے تو نثری نظموں کی تعریف کرنے یا ان کا مخالف نہ ہونے کا دعویٰ کرنے کا کیا مطلب ہے؟ دوسرے سوا ل کا جواب یہ ہے کہ میں ادب میں تجربے کا کبھی مخالف نہیں رہا اور نہ اب ہوں۔ نثری نظم بہرحال ایک تجربہ ہے، اس کا خیرمقدم کرنا، اور ممکن ہو تو اس تجربے میں مصروف لوگوں کو تعمیری مشورے دینا میرا فرض اور میری داخلی ضرورت ہے۔ میں ہر تجربے کو بہرحال مستحسن سمجھتا ہوں۔ اس کا تجزیہ کرنا ضروری جانتا ہوں اور اس کا خیر مقدم کرتا ہوں، چاہے اس کے امکانات فوراً ظاہر ہوں یا نہ ہوں۔تجربہ ہر شاعر کا حق ہے۔ پھر ہر تجربے کے آداب بھی ہوتے ہیں۔ اس کے لیے پہلے کچھ تربیت اور تیاری کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ادب کے قاری اور نقاد کی حیثیت سے میرے لیے یہ ضروری ہے کہ ہر تجربے کا مطالعہ کروں۔ اس کے آداب اگر متعین ہو سکتے ہیں یا پہچان میں آ سکتے ہوں تو ان کا ذکر کروں، اور اس کے لیے جس تربیت اور تیاری کی ضرورت ہے، اس کا بھی ذکر کروں۔ لہٰذا نثری نظم کی موجودہ صورت حال اور اس کے آئندہ انعقاد کے بارے میں میری جو بھی رائے ہو، میں نثری نظم کا مخالف نہیں ہوں۔پہلے سوال کا جواب کچھ زیادہ تفصیل طلب ہے۔ اس کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اگر شاعر اچھا ہے تو جو کچھ وہ لکھے گاوہ عام طور پر اچھا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اس کی ہر تخلیق اورہر تحریر کا معیار یکساں طور پر بلند نہیں ہو سکتا، لیکن عام طور پر اس کا معیار خرا ب شاعر کی تخلیق کے معیار سے برتر ہوگا۔ میر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ قصیدہ اچھا نہیں کہتے تھے۔ لیکن کس کے مقابلے میں؟ ظاہر ہے کہ سودا یا ذوق یا غالب یا انشا کے مقابلے میں ان کا قصیدہ کمزور ہوتا ہے، لیکن مظفر علی امیر اور ضامن علی جلال وغیرہ سے تو اچھا ہی ہوتا ہے۔ غالب کہا کرتے تھے کہ (فارسی قصیدوں میں) تشبیب کی حد تک تو میں بھی افتاں وخیزاں وہاں تک پہنچ جاتا ہوں جہاں تک عرفی وانوری پہنچے تھے، لیکن مدح میں وہ مجھ سے آگے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ غالب مدح میں منیر شکوہ آبادی اور عزیز لکھنوی سے بھی پیچھے ہیں۔لہٰذا اچھا شاعر بہرحال عام طور پر اچھی شاعری کرتا ہے۔ ہاں اس کی مختلف تخلیقات میں درجے کا فرق ہو سکتا ہے، اور ہونا بھی چاہیے۔ اظہار کی قوت ہر موقعے پر یکساں تو کام کرتی نہیں۔ ہمارے یہاں سانیٹ کا جو حال ہوا اس میں عبرت کے سامان اور اس نکتے کی مثالیں موجود ہیں۔ ایک زمانہ تھا، اس وقت کے بہت سے اچھے اہم اور تجربہ کوش شاعروں نے سانیٹ لکھے۔ تصدق حسین خالد (اگرچہ بقول حنیف کیفی، ان کا کوئی سانیٹ دستیاب نہیں ہے) ن۔ م۔ راشد، سلام مچھلی شہری، احمد ندیم قاسمی، اختر ہوشیار پوری وغیرہ۔ اگرچہ سانیٹ اردو شاعری کے بازار میں چل نہ پایا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ راشد کے سانیٹ اچھے نہیں ہیں۔سانیٹ کا انعقاد بہ طور صنف ہماری شاعری میں کیوں نہ ہو سکا، اس کی مختلف وجہیں بیان کی گئی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ صنف بہت مشکل تھی، اس لیے ہمارے شاعر اس کو ٹھیک سے برت نہ پائے۔ اس کی پابندیاں تخلیقی اظہار کو راس نہ آئیں۔ کوئی کہتا ہے غزل کی بے پناہ مقبولیت نے سانیٹ کو پنپنے نہ دیا۔ کوئی کہتا ہے ہمارے شعرا نے خلوص اور لگن کے ساتھ سانیٹ نہ لکھے، اس لیے اس کو عروج نہ حاصل ہوا (یہ سب باتیں غلط ہیں جیسا کہ میں آگے واضح کروں گا۔ ) وجہ جو بھی ہو، سانیٹ کا بازار بہت جلد سرد پڑ گیا۔ لیکن اس کے بہترین دور میں اچھے شعرا نے جو اچھے سانیٹ لکھے وہ بہرحال اچھی نظمیں ہیں۔ کسی صنف یا ہیئت کے قائم ہو جانے یا نہ ہو سکنے سے اس بات کی دلیل نہیں لائی جا سکتی کہ اس صنف میں اچھی شاعری ممکن یا ناممکن ہے۔ہو سکتا ہے کوئی صنف مقبول ہو جائے لیکن اس میں اچھی تخلیقات نہ لکھی جائیں، ہو سکتا ہے کوئی صنف مقبول نہ ہو پائے لیکن اس میں بعض اچھی چیزیں لکھی جائیں۔ لہٰذا اگر انیس ناگی یا کشور ناہید یا بلراج کومل یا احمد ہمیش یا شہر یار اچھی نثری نظمیں لکھ رہے ہیں تو اس وقت اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ اچھی نثری نظمیں ممکن ہیں۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نثری نظم بہ طور صنف کے قائم ہو گئی ہے، یا قائم ہو سکتی ہے، یا اس کی ضرورت ہے، یا اس کی ضرورت ثابت کی جا سکتی ہے۔یہاں یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ کسی صنف یا ہیئت کو قائم او ر مقبول یا عارضی یا نامقبول یا مسترد کب کہا جا سکتا ہے ؟ اس کا جواب ادب کی تاریخ سے بہ آسانی مل سکتا ہے۔ جب کسی صنف یا ہیئت کو خراب یا کمزور یا نوآمدہ فنکار بھی اختیار کر لیں، اور کئی نسلوں تک ایسا ہی ہوتا رہے، تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب یہ صنف یا ہیئت قائم ہوگئی کیونکہ خراب، کمزوریا نوآمدہ فنکار تجربے کا کڑا کوس نہیں کاٹ سکتے۔ وہ انہیں اصناف یا ہیئتوں میں طبع آزمائی کرتے ہیں، جن میں دوسروں کی دیکھا دیکھی ان کی بھی ہمت کھل جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اکثر شعرا غزل میں قدم پہلے رکھتے ہیں او ر اکثر فکشن نگار پہلے افسانے میں تگ وتاز کرتے ہیں۔اسی طرح جب کسی صنف یا ہیئت کو کسی زمانے کے اہم اور اچھے شعرا ترک کر دیں، اور ان کے بعد والے بھی اسے ترک کیے رہیں، تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ صنف یا ہیئت اب متروک ہو گئی۔ مسدس کی مثال سامنے ہے۔ وہی حال کربلائی مرثیے کا اور مدحیہ قصیدے کا ہے۔ جوش (اور ہمارے زمانے میں وحید اختر) کی کوششوں کے باوجود کربلائی مرثیہ اور عبدالعزیز خالد کے باوجود مدحیہ قصیدہ (اگرچہ وہ بھی نعت کی نظمیہ شکل میں ہے) ہمارے زمانے کے اصناف نہیں ہیں۔نثری نظم کے بارے میں ابھی تک یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسے خراب، کمزور اور نوآمدہ شعرا بھی کثرت سے اختیار کر رہے ہیں۔ معرایا آزاد نظم کی مثال بالکل سامنے ہے کہ اسمٰعیل میرٹھی اور عبدالحلیم شرر نے اسے کوئی پچاس برس ادھر شروع کیا، لیکن اہم شعرا نے اسے چالیس پینتالیس برس پہلے اختیار کیا اور آج ہم سب آزاد نظم کہہ رہے ہیں۔ ان شعرا کے سوا، جوصرف غزل کہتے ہیں، تمام شاعر کسی نہ کسی قسم کی آزاد نظم ضرور کہہ رہے ہیں اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ آزاد نظم ایک صنف اور ہیئت کے طور پر ہمارے یہاں قائم ہو چکی ہے۔اوپر میں نے کہا ہے نثری نظم کے منعقد نہ ہو سکنے کے اسباب اور اس کے آئندہ قیام کے امکانات کا دھندلاپن، ان اصناف سخن میں موجود ہیں جو ہمارے ادب میں پہلے سے رائج ہیں۔ چونکہ نثری نظم ہمارے یہاں مغرب سے آئی، اس لیے مغرب میں اس کے ارتقا اور فروغ وزوال کا مختصر جائزہ ضروری ہے۔ مغربی ادب کا ذکر کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ میں سلیم احمد کا ہم نوا ہوں، جن کے خیال میں نئی شاعری نامقبول شاعری ہے کیونکہ اس کے رویے، اسالیب اور تکنیک مغرب سے مستعار ہیں اور ہماری زمین میں اس کی جڑیں نہیں ہیں، غیر ملک سے مستعار ہونے سے کوئی چیز اچھوت نہیں ہوجاتی۔ آخر ناول اور افسانہ بھی تو مغرب سے درآمد کئے گئے ہیں، ان کی مقبولیت کی کیا وجہ ہے؟ میں یہ ہرگز نہیں کہتا کہ نثری نظم ہمارے یہاں اس وجہ سے رائج نہیں ہو سکی ہے اور اس کے رواج کے امکانات بھی کم ہیں کہ یہ ایک مغربی ہیئت ہے۔میں یہ کہہ رہا ہوں کہ مغرب میں اس کے ارتقا اور زوال کا جائزہ ہمیں ان اسباب وعوامل کو سمجھنے میں مدد دےگا جو کسی صنف یا ہیئت کو رائج کرنے میں کارفرما ہوتے ہیں۔ میں نے ’’زوال‘‘ کا لفظ جان بوجھ کر لکھا ہے، کیونکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نثری نظم کا زوال ہو چکا ہے۔ لیکن اگر وہاں اس کا زوال ہوچکا اور ہمارے یہاں عروج ہو رہا ہے یا ہونے والا ہے، تو اس میں کوئی شرم کی بات نہیں، یہ محض ایک تاریخی حقیقت ہے۔ بہت سی چیزوں کا ہمارے یہاں زوال ہو چکا ہے اور مغرب میں اب ان کا عروج ہو رہا ہے۔ یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔احتشام صاحب نے ایک بار بڑی حقارت سے کہا تھا کہ ٹی۔ ایس۔ الیٹ وغیرہ کی شاعری جو مغرب میں پچاس ساٹھ برس پرانی ہو چکی، اب ہمارے یہاں جدید ذہنوں کو متاثر کر رہی ہے۔ حالانکہ اس میں حقارت یا استہزا کی کوئی بات نہیں۔ (ویسے یہ بات غلط بھی ہے کہ ٹی۔ ایس۔ الیٹ وغیرہ کی شاعری کو اب مغرب میں کوئی پوچھتا نہیں۔ ) اقبال نے حافظ کے خلاف لکھا اور شاعری میں ان کے مغربی استاد معنوی گوئٹے نے حافظ سے بے اتنہا اثر قبول کیا۔احتشام صاحب اپنے زمانہ نوجوانی میں جن مغربی مصنفوں کو جدید سمجھ کر ان سے متاثر ہوئے تھے، ان میں سے بہتوں کے نام بھی وہاں کے لوگوں نے بھلا دیے تھے اور بہت سے ایسے لوگ (مثلاً جان ڈن) جن کا نام لینا بھی پچاس برس پہلے گناہ تھا اور احتشام صاحب جن سے بے خبر تھے، آج کے لوگوں کو متاثر کر رہے ہیں۔ تو تاریخ میں یہ سب چلتا ہی رہتا ہے۔ اس میں نہ کوئی برائی ہے نہ شرم۔ اگر مغرب میں نثری نظم کا زوال ہو چکا تو کیا ہوا؟ اگروہ ہمارے کام کی چیز ہے تو ہم اسے ضرور اپنائیں گے۔ مجھے اس میں کوئی شرم، کوئی تکلف نہیں۔بہرحال بات ہو رہی تھی مغرب میں نثری نظم کے ارتقا کی۔ چونکہ وہاں نثری نظم اور آزاد نظم کا تعلق بہت گہرا اور پیچیدہ ہے، اس لیے ایک کے ذکر میں دوسری کا ذکر بھی آ جائے تو اسے غلط مبحث مت سمجھئےگا۔ مثلاً والٹ وٹمین (Walt Whitman) کی نظموں کے بارے میں اب بھی یہ فیصلہ نہیں ہو سکا ہے کہ وہ آزاد نظمیں ہیں یا نثر ی نظمیں ہیں؟ آزاد نظم کی بھی تعریف وہاں ابھی باقاعدہ متعین نہیں ہو سکی ہے۔ اس سلسلے میں تاریخی اعتبار سے دو اقتباسات دلچسپ ثابت ہوں گے۔ ٹی۔ ایس۔ الیٹ کو عام طور پر آزاد نظم کا ایک اہم شاعر کہا جاتا ہے۔ اس کا ۱۹۱۷ کا ایک مضمون ہے، ’’آزاد نظم پر کچھ خیالات۔‘‘ (’’آزاد نظم‘‘ کے لیے اس نے فرانسیسی اصطلاح Vers Libre استعمال کی ہے، جوانگریزی اصطلاح Free Verse سے کچھ مختلف ہے۔ ) الیٹ کہتا ہے،’’وہ نام نہاد آزاد نظم جو اچھی شاعری ہے، وہ سب کچھ ہے مگر آزاد نہیں ہے۔۔۔ اگر آزاد نظم واقعی کوئی شعری ہیئت ہے تو اس کی کوئی مثبت تعریف ہوگی۔ اور میں اس کی تعریف صرف نفی میں بیان کر سکتا ہوں (۱) قماش (Patten) کی عدم موجودگی (۲) قافیے کی عدم موجودگی (۳) بحرکی عدم موجودگی۔تیسری خصوصیت کا تو آسانی سے قصہ پاک کیا جا سکتا ہے۔ کوئی مصرع جس کی تقطیع بالکل نہ ہو سکے، وہ کیسا مصرع ہوگا، میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔۔۔ کسی نہ کسی سادہ آسان سی بحرکا بھوت ’’آزاد ترین‘‘ نظم کے بھی پردوں کے پیچھے چھپا بیٹھا ہوتا ہے۔۔۔ جہاں تک آزاد نظم کا معاملہ ہے، ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ۔۔۔ روایتی اور آزاد نظم کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ کیونکہ یا تو اچھی شاعری ہوتی ہے، یا خراب شاعری، یا محض انتشار۔‘‘ میں نے مندرجہ بالا اقتباس کو پورے مضمون سے نکال کر ایک مربوط دعوے کی شکل دے دی ہے، کیونکہ الیٹ نے اپنے مضمون میں انگریزی شاعری سے بہت سی مثالیں دی ہیں جو ہمارے لیے غیر ضروری ہیں۔ بہرحال اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر نظم پابند ہوتی ہے (یعنی وزن وبحر کی پابند ہوتی ہے) اور اگر وزن وبحر نہیں تو محض انتشار ہوتا ہے۔ میں اس خیال سے متفق نہیں ہوں۔ لیکن یہ بات صحیح ہے کہ انگریزی شاعری کا عروضی ڈھانچہ ایسا ہے کہ اس میں طرح طرح کی آزادیاں ممکن ہیں اور تمام اچھے شاعروں نے انہیں روا رکھا ہے۔ لیکن وہ آزادیاں جو والٹ وٹمین نے برتی ہیں، ان کے تجزیے میں عروض بھی بعض اوقات ناکام رہ جاتا ہے اور الیٹ کایہ دعویٰ غلط ثابت ہوتاہے کہ اگر عروضی نظام نہ ہو تو انتشار پیدا ہوتا ہے۔پھر بھی یہ نکتہ قابل لحاظ ہے کہ انگریزی جیسی زبان میں جس کا عروض شاعر کے لیے بے انتہا آسانیاں رکھتا ہے (آسانیاں نہیں بلکہ آزادیوں کا موقعہ، اور ان موقعوں سے صرف اچھے ہی شاعر فائدہ اٹھا سکتے ہیں) نثری شاعری کے لیے کوئی نظریاتی یا عروضی بنیاد قائم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔الیٹ کے اس مضمون کے ساٹھ سا ل بعد ایک امریکی ماہر عروض نقاد نے ایک جدید شاعر، عروضی اور شعر خوانی میں ماہر امریکی ادیب اسٹینلی کنٹز (Stanley Kunitz) کے اس معاملے پر جو گفتگو کی اس کے اقتباسات حسب ذیل ہیں،’’س آزاد نظم میں آہنگ ہوتا ہے۔ج ہاں، نثرمیں آہنگ ہوتا ہے۔ اس میں بحر نہیں ہوتی، بشرطیکہ وہ بہت سختی سے منظم نہ ہو۔ اگر ایسا ہوتو وہ نظم کی کیفیت کی طرف بڑھ رہی ہوگی۔س کیا تمہارے خیال میں پابند شاعری میں تمہاری جو تربیت تھی، وہ آزاد تر شاعری میں تمہارے لیے کارآمد ثابت ہو رہی ہے؟ج ہاں، یقیناً میرا خیال ہے کہ ایسا شاعرجو عروض سے بے بہرہ ہے، جس نے باقاعدہ عروض کی تربیت کی مشق نہیں کی ہے، وہ بڑے گھاٹے اور مجبوری میں ہے۔س کیا تمہارے خیال میں غیر عروض شاعری بالآخر جدید عروض کی حد تک اس زمانے کے اسلوب کے طور پر پہچانی جائےگی؟ج غیرعروضی شاعری تو سارے میدان پر چھاگئی ہے۔ میرے خیال میں روایتی عروضیوں سے مخالفت کا اب اسے کوئی خطرہ نہیں ہے۔س کیا تمہارے خیال میں کسی عہد کے تجربات کے پس منظر میں یہ ضروری ہے کہ اسے کسی مخصوص طرح کے عروضی اسلوب کی ضرورت ہو؟ یعنی کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ ہم آزاد ہونا چاہتے ہیں اس لیے ہم مجبور ہیں کہ غیرعروضی شاعری اختیار کریں؟ج میرا خیال ہے یہ بات مہمل ہے۔ کوئی چاہے تو ہیروئی دوہے (Heroic Couplet) میں بھی آزاد رہ سکتا ہے۔ ایسی شاعری میں جو قیدوبند سے بالکل آزاد ہے، تم لامتناہیت کے قیدی ہو، اور اس سے بدتر کوئی قید نہیں، کیونکہ اس سے فرار ممکن نہیں۔‘‘ اس اقتباس سے کئی باتیں ظاہر ہوتی ہیں، الیٹ کے علی الرغم غیر عروضی نظم ممکن ہے (کم سے کم انگریزی میں) غیر عروضی یا پابند، کسی طرح کی نظم کے لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اظہار کی کوئی داخلی مجبوریاں ہو سکتی ہیں جو شاعر کو عروضی یا غیر عروضی نظم اختیار کرنے پر پابند کریں۔ غیر عروضی نظم کہنے کے لیے عروضی تربیت بہت ضروری ہے۔ اگر نثر میں منظم آہنگ ہو تو وہ نظم کی طرف مائل سفر ہو جاتی ہے۔ نثری نظم کا ذکر اس پوری بحث میں نہیں آیا ہے، ساری بات غیرعروضی نظم کے حوالے سے ہوئی ہے، یعنی ایسی نظم جو الیٹ کی طرح کی آزاد نظموں سے زیادہ آزاد ہے لیکن نثر نہیں ہے۔دونوں نظریات کو سامنے رکھا جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پابند شاعری میں بھی آزادیاں ہیں (یا آزاد شاعری میں بھی پابندیاں ہیں) لیکن شاعرانہ اظہار کسی ایک طرح کے اسلوب پر لامحالہ مجبور نہیں ہے۔ اور سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر ساٹھ برس پہلے نوجوان اور باغی الیٹ نے بھی اس کا ذکر نہیں کیا اور آج پچہتر سالہ اسٹینلی کنٹز بھی ایک طویل گفتگو میں اس کا نام نہیں لیتا، پھر تو نثری نظم کا پائے سخن درمیاں کس طرح آیا؟ (یا کس طرح آئے؟) اس بحث کو چھیڑنے میں اس بات کا خطرہ ہے کہ شعر کی ’’موسیقی‘‘ (یعنی وہ موسیقی جو کسی نہ کسی قسم کی بحر اور وزن کی پابندی کا نتیجہ ہوتی ہے) او رعام موسیقی کے تعلق پر اظہار خیال کرنا ضروری ہوگا، یہاں اس کا موقعہ نہیں۔لیکن یہ کہنا ضروری ہے کہ چاہے وہ گائی ہوئی Vocal موسیقی ہو یا بجائی ہوئی Instrumental اس میں اور شعر میں ایک بنیادی فرق ہے، لہٰذا دونوں میں کوئی براہ راست رشتہ نہیں۔ وہ فرق یہ ہے (جیسا کہ جان ہالنڈرJohn Hollander نے اپنی کتاب میں واضح کیا ہے) کہ ہم شعر کو صفحے پر پڑھ سکتے ہیں، اپنی نگاہ کو آگے پیچھے اوپر نیچے دوڑا سکتے ہیں۔ پچھلا پڑھا ہوا شعر ہم سے ضائع نہیں ہوتا۔ اس کے برخلاف سنی ہوئی موسیقی فوراً ضائع ہو جاتی ہے، کسی ریکارڈ یا موسیقار کو دوبارہ سننا یا بیچ سے روک کر پھر سننا وہ معنی نہیں رکھتا جو شاعری کے کسی صفحے پر نگاہیں دوڑانے سے حاصل ہوتے ہیں۔ اس پر میں اتنا اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ عام موسیقی کا انحصار راگ پر ہوتا ہے، جب کہ شاعری لفظوں سے بنتی ہے جو محض سر ہوتے ہیں اور ہر راگ میں تقریباً ہر طرح کا سرا دا ہو سکتا ہے۔شعر میں اصلاً کوئی راگ نہیں ہوتا، موسیقار الفاظ کے سروں کو اپنے راگ کے نظام میں ادا کرتا ہے۔ اس لیے شعر کی موزونیت اور موسیقی کے آہنگ میں بہت فرق ہے۔ ہمارے یہاں چونکہ ایسا موزوں شعر ممکن نہیں۔ اگر مغربی شاعری اور موسیقی میں بنیادی فرق ہے تو ہماری شاعری اور موسیقی میں بنیادی فرق بھی ہے اور گہرا فرق بھی ہے۔ وہاں تو غیرعروضی شاعری کے ذریعہ عام موسیقی سے آزادی حاصل ہو جاتی ہے۔ ہمارے یہاں چونکہ ایسا نہیں ہے اس لیے لوگوں کی للچائی ہوئی نگاہیں نثری شاعری کے آدرش پر پڑتی ہیں۔ یہ معاملہ صرف پابندیوں سے آزادی حاصل کرنے کے شوق کا نہیں ہے۔ والیری (Valery) تو کہا کرتا تھا،’’تنگ وسخت عروض کی مجبوریاں اور ضرورتیں ہماری فطری بول چال پر کچھ ایسی خاصیتیں لاد دیتی ہیں جوبے لچک اور ہماری فطرت کے لیے غیر ہوتی ہیں۔ اور ہماری خواہشات کو بالکل سن ہی نہیں پاتیں۔ اگر وہ تھوڑی بہت دیوانہ ہوتیں اور ہماری باغیانہ جبلت کو راہ نہ دیتیں تو یہ سب پابندیاں بے معنی اور مہمل ہوتیں۔‘‘ یعنی والیری کے خیال میں عروضی پابندیاں بنائی ہی اسی لیے گئی ہیں کہ ہم ان سے بغاوت کریں۔ کولرج نے بھی کچھ ایسی ہی بات کہی تھی کہ عروض اس لیے وجود میں آیا کہ وہ ہماری شدت اظہار کے جوش کو ایک خود کار عمل کے ذریعہ روکے تھامے رکھے اور اس طرح دونوں کے درمیان توازن کے ذریعہ ’’ارادہ‘‘ اور ’’فیصلہ‘‘ (جو اس صورت حال میں متصادم ہوتے ہیں) ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا نثری نظم کا معاملہ محض آزادیوں اور پابندیوں کی کش مکش کا معاملہ نہیں ہے۔ آزادیاں تو ہمارے عروض میں بھی خاصی ہیں (اگرچہ اتنی نہیں جتنی مغربی، خاص کر انگریزی، روسی اور رومانی عروض میں ہیں) ہمارے شاعر ان کا استعمال نہیں کرتے یا استعمال کرنا نہیں جانتے، یہ اور بات ہے۔اصل معاملہ یہ ہے کہ نظم کو کس طرح ایسا بنایا جائے کہ وہ عام موسیقی سے مختلف ہو اور اپنی آزاد موسیقی کا اعلان اور توثیق کر سکے۔ عروضی پابندی اور آزادی کو ومزٹ (W.K. Wimsatt) نے ایک سڑک سے تشبیہ دی ہے، جس پر آپ چاہیں تو گاڑی دائیں طرف رکھیں یا بائیں طرف یا بیچ میں، یا اگر چاہیں تو لہراتے ہوئے دائیں بائیں ہوتے چلیں، لیکن رہیں گے بہرحال سڑک پر ہی۔ ہمارے عروض میں لہراتے ہوئے چلنے کی تھوڑی بہت آزادی ہے لیکن اس حد تک نہیں کہ عام موسیقی کے سخت رسمیاتی (Formalistic) نمونے کا احساس بہت کم ہو جائے یا باقی نہ رہ سکے لیکن سوال یہ ہے کہ آیا نثری نظم بھی اس ضرورت کو پورا کرتی ہے کہ نہیں؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ ضرورت شاعری کی تو ہے نہیں، شاعر کی ہے۔ تو شاعر اپنی ضرورت کو کس حد تک شاعری پر جاری کر سکتا ہے؟مغرب کا معاملہ تو یہ ہے کہ بہ قول بورخیس (Jorgele Luis Borges) ہر تحریر جسے شاعری کی طرح تصور کیا جائے شاعری ہے۔ یعنی وہاں نثری نظم کی تعریف یہ ہے کہ وہ تحریر جس میں شاعری کا سارا ارتکاز اور شدت ہو اور جسے نظم سمجھا جائے، لیکن جس کو نثر کی طرح پیراگراف بناکر چھاپا جائے، نثری نظم ہے۔ (ملحوظ رہے کہ ہمارے یہاں نثری نظم بندوں میں لکھی جاتی ہے اور ان کے یہاں پیراگراف میں) نثری نظم کا موجد بودلیئر کو سمجھا جاتا ہے لیکن خود اس نے ایک جواں مرگ غریب گم نام شاعر برتراں (Bertrand) کو اس کا موجد ٹھہرایا ہے۔یہ ضرور ہے کہ ’’نثری نظم‘‘ (Poemesenprose) کی اصطلاح بودلیئر کی وضع کردہ ہے۔ بودلیئر کی نثری نظمیں (اور اس کے بعد بھی تمام نثری نظمیں مثلاً ریں بوRimbaud، ملارمے Mallarmeاور لوتریاموں Lautreamont فرانسیسی میں، جارج Stefan George اور رلکے Rilke جرمن میں) پیرا گراف کے التزام سے لکھی گئی ہیں۔ بعض لوگوں نے نطشہ کے ’’بقول زردشت‘‘ کو بھی نثری نظم کہا ہے، لیکن بعض نے لوتریاموں کی طویل نظم اور ’’بقول زردشت‘‘ کو شاعرانہ ناول کہا ہے۔ ہمارے زمانے میں مغربی شعرا نے اکا دکا نثری نظمیں لکھی ہیں (بورخیس کا نام قابل ذکر ہے) لیکن ان میں بھی پیرا گراف کا التزام ہے۔لیکن نثری نظم کے وجودمیں آنے کے پہلے (مغربی ادب میں) ’’شاعرانہ نثر‘‘ کی تحریک (یا’’شاعرانہ نثر‘‘ کی طرف رجحان) وجود میں آ چکا تھا۔ ’’آزاد شاعری‘‘ کی طرف اس فطری میلان کے باعث جو انگریزی عروض اور فن شاعری کا خاصہ ہے، ایک عرصے تک انگریزی شاعری میں ’’شاعرانہ نثر‘‘ کی کوئی خاص اہمیت نہ تھی۔ اس کے برخلاف فرانسیسی شعرا جو انگریزی کے مقابلے میں بہت زیادہ پابندیوں میں جکڑے ہوئے تھے، ’’شاعرانہ نثر‘‘ کی طرف شعوری طور پر مائل ہوئے۔ فرانسیسی شاعری کی پابندیوں کا تصور بھی ہم آسانی سے نہیں کر سکتے۔ بس اسی سے اندازہ کر لیجیے کہ شروع شروع ان کی’’آزاد‘‘ شاعری بھی قافیے سے آزاد نہیں تھی۔ شاعرانہ نثر کے بعد ایک مختصر دور’’نظم آزاد کردہ‘‘ جسے اصطلاح میں Vers Libere کا نام دیا گیا، لیکن انیسویں صدی کے وسط تک نثری نظم سامنے آئی اور اس کے بعد آزاد نظم جسے فرانس میں Vers Libere کہا گیا اور جو انگریزی کی Free Verse سے تھوڑی بہت مختلف رہی ہے۔انگریزی میں نثری نظم کا کوئی باقاعدہ چلن نہیں ہوا، کیونکہ وہاں (جیسا کہ میں اوپر کہہ چکا ہوں) عروض اور فن شاعری دونوں میں اچھی خاصی آزادیاں پہلے سے موجود تھیں اور پرانے شعرا کے یہاں بھی آزاد نظم سے ملتی جلتی چیزیں مل جاتی ہیں۔ لہٰذا انگریزی میں آزاد نظم بہت جلد مقبول ہوئی اور ہمیشہ فرانسیسی نظم سے زیادہ ’’آزاد‘‘ رہی۔ انگریزی عروض کے جو ہر میں جو آزادیاں پیوست ہیں ان کے باعث ہاپکنز جیسے شاعر کی نظمیں بھی عام طور پر کوئی بھیانک قسم کا گناہ کبیرہ نہیں تصور کی گئیں۔ اس کے برخلاف فرانس میں چونکہ نثر کے بھی آداب بہت سخت تھے، اور وہاں عروض وقافیہ کا نظام بھی بہت پریشان کن تھا، اس لیے شعرا نے بتدریج ’’شاعرانہ نثر‘‘ پھر ’’نثری نظم‘‘ پھر ’’نظم آزاد کردہ‘‘ یعنی Vers Libere آزاد نظم کو اختیار کیا۔ یعنی نثری نظم فرانسیسی جدید شاعری کے ارتقا کی ایک منزل تھی جو بہت جلد پیچھے چھوٹ گئی اور جسے انگریزی شاعری نے صرف دور ہی دور سے دیکھا۔ہیئت میں یہ ارتقائی تجربے اس لیے ہوئے تھے کہ موجودہ اصناف سے تمام ضرورتیں نہیں پوری ہو رہی تھیں، حتی کہ فرانس میں وہ ’’رنگین نثر‘‘ یا ’’شاعرانہ نثر‘‘ بھی بہت کم تھی جس کے نمونے انگریزی میں سترہویں صدی سے ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔ شاعری کو اظہار کے نئے راستوں کی تلاش تھی۔ موجودہ اصناف میں وہ راستے تھے نہیں، اس لیے نثری نظم اور پھر آزاد نظم وجود میں آئی اور جب آزاد نظم قائم ہو گئی تو نثری نظم خود بہ خود راستے سے ہٹ گئی۔میں نے اوپر یہ سوال اٹھایا تھا کہ کسی صنف یاہیئت کے بارے میں کب کہا جا سکتا ہے کہ وہ منعقد یا مسترد ہو گئی۔ اب میں یہ سوال اٹھا سکتا ہوں کہ کوئی صنف یا ہیئت کب وجود میں آتی ہے یا اختیار کی جاتی ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ تمام انسانی اعمال یا فیصلے یا انتخابات جو فطری یا جبلی ضرورتوں کی وجہ سے ظہور میں آتے ہیں، اس اصول کے تحت ہوتے ہیں جسے آکم کا استرا (Occam,s Razor) کہا جاتاہے۔ ولیم آف آکم (William of Occam) یا اوکہم (Okham) چودہویں صدی کا ایک مفکر تھا جس نے منطق، ریاضی اور اس طرح کی تمام کارگزاریوں کے لیے ایک اصول وضع کیا تھا جسے آسان زبان میں یوں بیان کر سکتے ہیں کہ ’’جو کام کم سے ہو سکتا ہے اسے زیادہ سے مت کرو۔‘‘  یعنی ایک مقصد کو پورا کرنے کے لیے ایک ذریعہ، یا ایک ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ایک ایجاد، کافی ہے۔ یا اگر کوئی وقوعہ کسی ایک استدلال یا توجیہ کے ذریعہ پورا پورا سمجھا جا سکتا ہے تو تکثیر استدالال یا توجیہ کی ضرورت نہیں۔ (چونکہ اس اصول پر عمل کرنے کے نتیجے میں غیر ضروری مقدمات یا کوششوں سے چھٹکارا مل جاتا ہے اس لیے اس کو آکم کا استرا کہتے ہیں۔ )بہرحال، ادبی اصناف اور ہیئتوں کی تاریخ کا مطالعہ آکم کے استرے کے عمل کو اچھی طرح واضح کرتا ہے۔ کیونکہ ایک مقصدکے اظہار کے لیے، یاایک ہیئتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ایک ہی صنف یا ہیئت وجودمیں آئی۔ کسی کی تعریف یا برائی میں مسلسل شعر کہنا ہیں؟ قصیدہ لکھیے۔ کربلا کے واقعات بیان کرنا ہیں؟ مرثیہ لکھیے۔ عشقیہ شاعری کرنا ہے، لیکن عشق کے مختلف معاملات کو بہ یک وقت نظم کرنا ہے؟ غزل کہیے۔ مختلف موضوعات ومعاملات پر مبنی ایسی نظم کہنا ہے جس میں ردیف وقافیہ کابھی لطف ہو؟ غزل موجود ہے۔ نہیں، مجھے تو کم سے کم الفاظ میں اپنی بات کہنا ہے اور مربوط طریقے سے کہنا ہے۔ رباعی موجود ہے۔ نہیں، مجھے اشعار کی تعداد کی قید پسند نہیں، اور مطلع کا جھگڑا کیوں ہو، اور سب شعر الگ الگ کیوں ہوں؟ کوئی بات نہیں، قطعہ لکھیے۔ میں تو چاہتا ہوں غزل کا بھی لطف ہو اور مثنوی کابھی، ٹھیک ہے، مسدس لکھیے وغیرہ۔ میرے خیال میں اس بات کی وضاحت کی ضرورت نہیں کہ تمام اصناف اور تمام ہیئتیں مخصوص مقاصد اور ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں۔ جب موجود اصناف اور ہیئتیں کافی نہ معلوم ہوئیں تو نظم وجود میں آئی، جس میں ہر صنف کی کوئی نہ کوئی صفت موجود ہے، یا پیدا کی جا سکتی ہے۔ جب ردیف قافیہ کی تنگی زیادہ محسوس ہوئی تو نظم معرا، اور جب اوزان میں تنوع کی ضرورت کا احساس ہوا تو آزاد نظم کو اختیار کیا گیا۔اس تجزیے کی روشنی میں یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ سانیٹ ہمارے یہاں کیوں سرسبز ہوا، آخر سانیٹ ہے ہی کیا؟ موضوعات کے لحاظ سے اس میں کوئی تخصیص نہیں۔ کوئی ایسا موضوع نہیں جو سانیٹ میں بندھ سکتا ہو اور نظم اس سے قاصر ہو۔ لے دے کر بندوں کا التزام ہی تو ہے جوسانیٹ کی مخصوص صفت ہے۔ اب آپ سانیٹ کو چاہے ۶+۸ میں بانٹیے، ۲+۴+۴+۴ میں بانٹیے، ۶+۴میں بانٹیے، ۲+۸میں بانٹیے، جو بھی کیجیے، ہر طرح کا بند ہمارے یہاں موجود ہے۔ تو پھر ہم سانیٹ کا جھگڑا کاہے کو مول لیتے؟ اب رہ گئی ترتیب قوافی، توسانیٹ کی کوئی ایسی ترتیب نہیں جو ہم نے مختلف نظموں میں پہلے ہی نہ برت لی ہویا نہ برت سکتے ہیں۔یہ سانیٹ کی بدقسمتی تھی کہ وہ ہمارے ملک میں اس وقت درآمد کیا گیا جب نئی طرح کی مختلف ترتیب قوافی والے بندوں کی نظم ہمارے یہاں پہلے ہی مقبول یا موجود تھی۔ سانیٹ اگر غالب کے زمانے میں درآمد کیا گیا ہوتا تو اس کے پھلنے پھولنے کے امکانات تھے۔ ہماری نظم کی تاریخ کے جس دور میں سانیٹ یہاں پہنچا ہے اس کا انجام بہ خیر ہوہی نہیں سکتا تھا۔ سانیٹ ہمارے یہاں اس لیے ناکام ہوا کہ وہ ہماری شاعری کی صنفی یا ہیئتی ضرورت کو نہیں پورا کرتا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ نثری نظم ہماری کون سی صنفی یا ہیئتی ضرورت کو پورا کرتی ہے؟ صنفی ضرورت کا تو دراصل کوئی سوال ہی نہیں۔ کیونکہ نثری نظم کے کوئی ایسے مخصوص موضوعات نہیں ہیں جو دوسری طرح کی نظموں میں بیان نہ ہوسکتے ہوں۔ لہٰذا معاملہ صرف ہیئتی ضرورتوں کا رہ جاتا ہے۔٭ہم ایسی نظم لکھنا چاہتے ہیں جو ردیف وقافیہ سے پاک ہو۔٭٭معرا نظم لکھیے۔٭ہم ایسی نظم لکھنا چاہتے ہیں جو وزن کی پابند نہ ہو۔٭٭آزاد نظم لکھیے۔٭ہم ایسی نظم لکھنا چاہتے ہیں جس میں کسی مقررہ بحر یا وزن کی پابندی نہ ہو۔٭٭مختلف الوزن آزادنظم لکھیے، یاان آزادیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جو آپ کے عروض میں پہلے سے موجود ہیں، ایک ہی بحر کے مختلف اوزان استعمال کیجیے۔٭ہم ایسی نظم لکھنا چاہتے ہیں جو موزوں ہو لیکن غیرعروضی ہو، یعنی کسی مقررہ بحر میں نہ ہو۔٭٭آپ کی زبان میں آوازوں کا نظام اس طرح کا ہے کہ ایسی نظم ممکن ہی نہیں ہے۔ ہندی کی دوچار بحروں سے کام چل سکتا ہے بشرطیکہ وہ آپ کی زبان میں کھپ جائیں۔ لیکن پھر بھی وہ نظمیں غیر عروضی نہ ہوں گی، ہندی کی بحر یا بحروں میں ہوں گی۔٭چونکہ ہم غیر عروضی لیکن موزوں نظم نہیں لکھ سکتے (کیونکہ ہماری زبان ہمارے خلاف ہے) اس لیے نثری نظم لکھیں گے۔٭٭مگر کیوں؟٭ اس لیے کہ نظم کی شان ہی اور ہوتی ہے، زبان ہی اور ہوتی ہے، مجرد نثر میں وہ بات کہاں؟ آخر ہندی میں بھی تو نثری نظم لکھی جا رہی ہے۔٭٭بےچاری ہندی کی بات نہ کیجیے۔ وہ ایک پس ماندہ زبان ہے۔ اس میں ایک بھی اعلیٰ درجے کا نثرنگار نہیں۔ آپ کے یہاں تو ملا وجہی، حسین عطا خاں تحسین، میر امن، غالب، او ر محمد حسین آزاد سے لے کر نئے افسانہ نگاروں تک تخلیقی نثرنگاروں کی ایک پوری فوج موجود ہے۔مندرجہ بالا محاکمہ برائے تفریح نہیں، بلکہ نثری نظم کے بنیادی نظریاتی مسئلے پر غور کرنے کے لیے ہے۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی شرم نہیں کہ میں اب تک یہ نہیں سمجھ سکا کہ نثری نظم ہماری شاعری کی کون سی صنفی یاہیئتی ضرورت کو پورا کرتی ہے؟ بعض گزشتہ اور بعض معاصر نثرنگاروں کے یہ نمونے دیکھیے،(۱) مجھ کو دیکھکہ نہ آزاد ہوں نہ مقیدنہ رنجور ہوں نہ تندرستمردہ ہوں نہ زندہ(۲) جس سے معاملہ ہے اس کو ویسا ہی برترہا ہوں۔لیکنسب کو وہم جانتا ہوں۔ یہ دریانہیں ہے، سراب ہےہستی نہیںپندار ہے(۳) ایک سیر دیکھ رہا ہوں۔کئی آدمی طیور آشیاں گم کردہ کی طرحہر طرفاڑتے پھرتے ہیں۔ان میں سے دوچار بھولے بھٹکے کبھییہاں بھی آ جاتے ہیں۔(۴) ادھر چاندمغرب میں ڈوبا، ادھرمشرق سے زہرہ نکلیصبوحی کا وہ لطف! روشنی کا وہ عالم یہ سب خطوط غالب کے اقتباسات ہیں۔ میں نے الفاظ کی ترتیب نہیں بدلی ہے، صرف جملوں کو توڑ کر آج کی مروج نظموں کی طرح لکھ دیا ہے۔ ان کی تلاش کرنے میں کوئی خاص کاوش نہیں کی ہے۔ مزید ملاحظہ ہو،(۵) مگر جیتی جان کے لیےشگفتگی کا۔۔۔ ایک وقت ضرور ہوتا ہے۔ اورسید انشا تو وہ شخص تھے کہ ہر بزممیں گلدستہ اور ہرچمن میں پھول۔(۶) تعجب ہے ان لوگوں سے، جو شکایت کرتے ہیںکہ پہلے بزرگوںکی طرح اب صاحب کمال نہیں ہوتے۔ پہلےجولوگ کتاب دیکھتے تھے تو اس کے مضمون کو اس طرح دل ودماغمیں لیتے تھے جس سے اس کے اثر دلوںمیںنقش ہوتے تھے۔(۷) کاشآگے قدم بڑھاتےتاکہ حسن وعشق کے محدود صحن سے نکل جاتےاور ان میدانوں میںگھوڑے دوڑاتے کہنہ ان کی وسعت کی انتہا ہے نہ عجائب ولطائفکا شمار ہے۔یہ محمد حسین آزاد کی’’آب حیات‘‘ کے اقتباسات ہیں۔ یہاں بھی میں نے الفاظ میں کوئی تغیر نہیں کیا ہے، صرف جملوں کو توڑکر لکھا ہے۔ اب میں جان بوجھ کر نیاز فتح پوری جیسے مسخروں کو چھوڑتا ہوں جنہوں نے قلم توڑ کر’’شاعرانہ‘‘ نثر لکھی ہے (ملحوظ رہے کہ ’’شاعرانہ‘‘ نثر لکھنا نہ غالب کا ادعا تھا اور نہ محمد حسین آزاد کا مدعا۔ یہ لوگ تخلیقی نثر نگار تھے، نثر لطیف یا کثیف کا کوئی تصور ان کے یہاں نہ تھا، کم سے کم ان تحریروں کی حد تک۔ ) اب معاصرین کے کچھ نمونے دیکھیے،(۸) کوٹھری کی دہلیز اس کے نزدیک اندھیرے کی سرحد تھیمٹی میں اٹی اندھیرے کی چوکھٹ لانگتے ہوئےدل دھیرے دھیرے دھڑکنے لگتا اوراندر جاتے جاتے وہ پلٹ پڑتی۔اس کوٹھری سے اس کا رشتہکئی دفعہ بدلا تھا۔ آگےوہ ایک مانوس بستی تھی، مانوس میٹھےاندھیرے گھر کی بستی(۹) آتش دانبلیک ماربل کو کاٹ کر بنایا گیا ہے جس پرجگہ جگہ، بے ترتیب سفید دھاریاں ہیں، میںکچھ دیران دھاریوں کوبڑے غور سے دیکھ رہا ہوں۔ ایسالگاجیسے دو دھاریاں ایک بے پایاں صحرا کے لینڈ اسکیپجیسی ہیں۔ بالکلخالی صحرا۔(۱۰) ہمارا تمام اثاثہ ہم سے چھین لیا گیا ہے۔ ہم بےسپرہو چکے ہیں۔ احتجاجکے تمام داخلی عناصر کسی سازش کے تحت شکستتسلیم کر چکے ہیں۔وحشیجانور چاروں طرف ٹکریں مارتے ہیں۔ چڑیاںہانپ ہانپ کراپنے پنکھ ڈھیلے کر دیتییہ اقتباسات بالترتیب انتظار حسین، سریندر پرکاش اور قمر احسن کے افسانوں سے لیے گئے ہیں۔ یہاں بھی جملوں کو توڑ نے کے علاوہ عبارت میں کوئی تغیر نہیں کیا گیا ہے۔ اب یہ آخری اقتباس دیکھیے۔ انور سجاد کے اس افسانے سے تمام سطریں میں نے اسی طرح نقل کی ہیں جیسی انہوں نے لکھی ہیں۔ کوئی جملہ توڑا نہیں گیا ہے،(۱۱) ہر آنکھ شہزادے کیخاوند کا دعویٰ لیے اس کی کوکھ پر ثبت جیسے حجری نقوشوہ اپنے خاوند کی شناخت کیسے کرے۔ دیوار میں چنی نظریں۔وہ سوچتی ہے،کیا دیوار میں چنی نظروں کو چھڑانے کے لیے دیوار کو ڈھا دینا ضروری نہیں؟تاکہ گود خوابوں سے ہری ہو؟وہ سوچتی ہے۔ ایک بار پھر خوف سے کپکپانے لگتی ہےسارا عذاب یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ان گیارہوں عبارتوں اور آج کی نثری نظم میں اگر کوئی فرق ہے تو محض جزئیات کا (زبان، محاورہ، غالب اور محمد حسین آزاد کی حد تک اور انور سجاد کے علاوہ باقی افسانہ نگاروں کی حد تک افعال کی کثرت کا۔ انور سجاد کی نثرمیں تناؤ نسبۃً زیادہ ہے، سریندر پرکاش کے یہاں سب سے کم، لیکن یہ انفرادی اسلوب کے امتیازات ہیں۔ انور سجاد کے یہاں ارتکاز بھی زیادہ ہے۔ یہ ان کے تمام افسانوں کی امتیازی صفت ہے۔ ) پھر ایسی صورت میں نثری نظم ہماری کون سی ضرورت پوری کر رہی ہے؟ ہاں افسانہ نگاروں سے یہ سوال ضرور پوچھا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی نثر کو نظم کیوں بنائے دے رہے ہیں؟ ممکن ہے یہ سوال کبھی میں ہی ان سے پوچھ بیٹھوں، لیکن بنیادی طور پر یہ جھگڑا تخلیقی فنکاروں کا ہے، اسے وہی لوگ طے کریں توبے چارہ نقاد مصلوب ہونے سے بچ جائے۔