نثری نظم کا مسئلہ
ایک سوال، جس پر غور کرنے کی ضرورت ہمیشہ باقی رہے گی، یہ ہے کہ ادب کی اصناف کے ڈھانچے یا ہیئت کے تعین میں بنیادی رول کون ادا کرتاہے؟ یا یہ کہ کسی مخصوص صنف کی ترکیب کے عناصر میں سب سے زیادہ عمل دخل کس کا ہوتا ہے؟ شعری اور ادبی قدروں کا؟ افراد کا؟ کسی مخصوص فکری میلان کا؟ یا کسی خاص زمانے کا؟ ہمارے یہاں شاعری کی صنفیں یا تو اپنے موضوع سے پہچانی جاتی ہیں۔ یا پھر اپنی ہیئت اور بناوٹ سے۔ کچھ صورتوں میں موضوع اور ہیئت ایک ساتھ دونوں کی بنیاد پر کسی صنف کی پہچان مقرر کی جاتی ہے۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مختلف صنفیں کسی نہ کسی سطح پر ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہوتی ہیں کہ ان کے بہت سے عناصر ایک دوسرے سے مماثل ہوتے ہیں۔ ان میں تجربے، خیال اور موضوع کی حدیں قائم کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ان میں کچھ امتیازات کے ساتھ ساتھ اشتراک کے کچھ پہلو بھی نکل آتے ہیں۔
اس معاملے میں شاعری کی جو صنف ہمارے لئے سب سے زیادہ مسئلے پیدا کرتی ہے، نظم کی صنف ہے۔ قصیدہ، مرثیہ، مثنوی، غزل، رباعی کے معاملات بڑی حد تک نظم سے مختلف ہیں کہ ان تمام صنفوں کی روایت بہت پرانی اور مستحکم ہے۔ اسی لئے ان اصناف کی ہیئتوں میں کوئی بہت بڑی انقلابی تبدیلی ممکن نہیں۔ آزاد غزل، نثری غزل کے تماشے نہ شاعر کو راس آتے ہیں نہ شعر کو۔ اس قسم کی حوصلہ مندی نے غزل کی صنف سے اس کا سب سے بڑا امتیاز یعنی اشعار کی memorability چھین لی۔ کسی شخص کو اگر آزاد اور نثری غزل کے شعر از بر ہوں تو اسے اس شعر سے زیادہ اس شخص کا کمال سمجھنا چاہئے۔ یہ تمام صنفیں جن کا ذکر ابھی کیا گیا، ایک مستحکم تہذیبی اساس رکھتی ہیں۔ قصیدے، مثنوی، مرثیے، رباعی کا تصور ایک مربوط اور معینہ اجتماعی روایت کے تصور کا پابند ہوتا ہے۔ ان صنفوں پر گفتگو میں ہم ان کے روایتی پس منظر کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔
ایک واضح تہذیبی اساس تو نظم کی صنف بھی رکھتی ہے۔ بلکہ آگے جانے سے پہلے یہ عرض کرتا چلو ں کہ تہذیبی تقاضوں اور صورتوں یا تہذیبی دباؤ کے ایک تصور کے بغیر میرے لئے کسی صنف کی شناخت اور تعمیر کا تصور کوئی معنی نہیں رکھتا۔ لیکن شعر کی دوسری صنفوں کے مقابلے میں نظم کی صنف کے معاملات بعض اعتبارات سے مختلف بھی ہو جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں سامنے کی چند باتیں حسب ذیل ہیں۔
(۱) نظم کی روایت اردو کی تاریخ میں اس طور پر متعین نہیں کی جا سکتی جس طرح مثال کے طور پر قصیدے، مرثیے اور غزل کی تاریخ۔
(۲) ان اصناف کے مقابلے میں نظم کی صنف کم سے کم انیسویں صدی کے اواخر تک بہت مایہ دار نہیں رہی۔ نظیر اکبرآبادی کی حیثیت محض استثنائی ہے۔
(۳) مثنوی اور مرثیے کی ہیئت کے ساتھ قصیدے اور غزل کی جیسی Orthodoxy تو وابستہ نہیں رہی لیکن ان صنفوں میں جو تجربے یا ان کی وضع میں تھوڑی بہت جو تبدیلیاں دکھائی دیں ان کی حیثیت بھی ضمنی ہے۔
(۴) اردو اصناف سخن میں نظم واحد صنف ہے جو روایتی مشرقی پس منظر کی بجائے انیسویں صدی کی تہذیبی نشاۃ ثانیہ اور مغرب کے اثر سے ادبی فکر میں رونما ہونے والے تغیرات سے نسبت رکھتی ہے۔
(۵) قصیدے، مرثیے، مثنوی، غزل کی شعریات کا سلسلہ قدیم مشرقی روایات سے ملتا ہے جب کہ نظم کی شعریات کو مرتب کرنے کے لئے ہمیں جدید دور، مغربی تمدن، مغرب اور مشرق کی آویزش اور مغرب اور مشرق کے مابین ایک معاشرتی، تہذیبی اور لسانی مکالمے پر توجہ دینی ہوگی۔
بے شک ہندوستان میں کتھا کہانیاں، داستان حکایت اور قصص ملفوظات کی ایک لمبی تاریخ موجود ہے، پھر بھی نیا ناول اور افسانہ صنعتی عہد اور نئے ذہنی و جذباتی کلچر کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اس طرح مہا کاویہ، رزمیے، مثنوی، اور قصیدے کی شکل میں مربوط طور پر تخلیقی اظہار کی ایک روایت کے ہوتے ہوئے بھی نظم کو آزاد اور حالی کے دور میں ایک نئی بنیاد کی تلاش کرنی پڑی۔ صرف مسدس اور مثنوی کا فارم جدید نظم کے تْخلیقی اور فکری تقاضوں اور نظم گو شعرا کی وجدانی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتا تھا تو کیا پابند، معرا، اور آزاد نظم کے ایک توانا سلسلے کا وجود کافی نہیں تھاکہ نظم کی کسی نئی ہیئت اور اظہار کے ایک نئے اسلوب کی تشکیل بھی ضروری سمجھی جائے؟ اس سلسلے میں ایک ساتھ کئی نکات پر غور کرنا ہوگا۔
مگر ان نکات پر توجہ سے پہلے یہ معروضہ پیش کرتا چلوں کہ اس سوال کی بابت میرا جواب اثبات میں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی ہیئت محض بے سبب وجود میں نہیں آتی۔ حد تو یہ ہے کہ آزاد غزل اور نثری غزل کہنے والے بھی اپنے اقدام کا اچھا برا جواز رکھتے ہیں مگر ایک تو جواز کمزور ہے اور غزل کے بنیادی مطالبے کی نفی کرتا ہے اور دوسرے یہ کہ آزاد یا نثری غزل بامشقت رہائی کے ایک لمبے تجربے کے بعد بھی اعتبار نہیں قائم کر سکی، اس لئے نثری نظم کے مسئلے کو آزاد اور نثری غزل کے مسئلے میں الجھانا فضول ہے۔ نثری نظم کا مسئلہ ہمیں جن نکات پر فکر کی دعوت دیتا ہے، مختصر اًوہ اس طرح بیان کئے جا سکتے ہیں۔
(۱) اپنی روایت کو ایک زمین مہیا کرنے والے ایسے تمام شعرا جو تخلیقی ذمہ داری کا کچھ شعور رکھتے ہیں، ا ن کی بنیادی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس روایت کی تعمیر میں کام آنے والے بنیادی احساسات کا دائرہ وسیع کریں۔ تخلیقی لحاظ سے تھکے ماندے، صرف عادتاً شعر کہنے والے، مہم پسندی کے جو کھم سے ڈرنے والے شاعر پیش پا افتادہ احساسات پر قانع رہتے ہیں۔
(۲) کسی بھی نئے اسلوب کی تلاش کا مطلب یہ ہوتاہے کہ لکھنے والا اپنی داخلی زندگی کو نئے سرے سے اور ایک نئی سطح پر سمجھنا چاہتا ہے۔ اس کے وجدان میں اتنی لچک ہے کہ بندھے ٹکے، بتائے ہوئے، آزمائے ہوئے راستوں سے ہٹ کر اس تلاش میں سرگرداں ہو سکے۔ اس کی تخلیقیت کا عمل خودسری کے ایک فطری جذبے کا ہم رکاب ہے اور وہ اظہار کے اجنبی، نامانوس وسائل کو ہاتھ لگانے سے ڈرتا نہیں ہے۔
(۳) اس ضمن میں عسکری صاحب کی کہی ہوئی ایک بات یاد آتی ہے کہ وسائل کے نئے اظہار سے دلچسپی کے بغیر لکھنے والوں کے یہاں ایسے تجربے روشن نہیں ہوتے جو کسی نئے اسلوب کے طالب ہوں۔ نئے وسائل کو استعمال کرنے کی خواہش ہی نئے تجربوں سے، نئے طرز احساس سے، اپنے آپ کو سمجھنے اور منکشف کرنے کی نئی کوششوں سے نسبت رکھتی ہے۔
(۴) یہاں ایک ضمنی سوال بھی اٹھتا ہے۔ یہ کہ اظہار کے وسائل یا اسالیب میں تبدیلی عمل کی نوعیت کیا ہوتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ تبدیلی اندرونی اور داخلی بھی ہو سکتی ہے اور اوپری یا سطح (Surface) پر دکھائی دینے والی بھی ہو سکتی ہے۔
(۵) نثری نظم کی تاریخ میں جائے بغیر، پچھلے دس پندرہ برسوں کی نثری شاعری پر ایک نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتاہے کہ شاعر انہ طرز احساس میں ایک خاموش مگر ناگزیر تغیر صرف اردو ہی نہیں، ہماری مختلف علاقائی زبانوں اور ہمارے زمانے کی بین الاقوامی شعری روایت کا حصہ بھی بن چکا ہے۔ اسے اس عہد کی ایک عالمگیر تخلیقی سرگرمی کا عمل سمجھنا چاہئے۔
(۶) ہو سکتا ہے کہ یہ رائے کچھ لوگوں کو بہت سرسری (Sweeping) معلوم ہو، مگر واقعہ یہی ہے کہ نثری نظم سے پہلے شاعری کے اسلوب میں اتنی بڑی انقلابی تبدیلی کا کوئی نشان ہمیں اپنی روایت میں نہیں ملتا۔ بے قافیہ نظم اور آزاد نظم کو، بے شک، ایک حوصلہ مندانہ تخلیقی تجربے کی حیثیت حاصل ہے، پھر بھی اس حوصلے کے ہاتھوں ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا جسے ہم اپنی روایت کے محور میں تبدیلی سے تعبیر کر سکیں۔ جدید اردو نظم کے تشکیلی دور میں کئے جانے والے ہیئت کے تجربوں سے لے کر ترقی پسند بلکہ جدید تر شاعروں تک معرا، اور آزاد اور Run on lines کے پیٹرن (Pattern) پر وضع کی جانے والی نظموں تک، بیرونی سطح پر تبدیلیوں کے باوجود ہمیں اپنی نظمیہ شاعری پر مشرقی روایات کا سایہ صاف دکھائی دیتا ہے۔
راشد، میراجی، فیض، جعفری، اختر الایمان، مجید امجد، منیر نیازی، مختار صدیقی، عمیق حنفی، عادل منصوری، کمار پاشی، قاضی سلیم یہاں تک کہ زاہد ڈار (مادھو کے دور والے) عباس اطہر، صلاح الدین محمود، ساقی فاروقی، شہر یار اور ان کے ہم عصروں تک، نظمیہ شاعری کی سطح پر ہمیں روایت میں ایک توسیع کا احساس تو ہوتا ہے، اس سے انحراف کا نہیں۔
نثری نظم دراصل ایک انحراف بھی ہے اور اجتہاد کی ایک کوشش بھی۔ اور اس بدعت کی ذمہ داری صرف راہ گم کردہ نوجوانوں کے سر نہیں جاتی۔ سجاد ظہیر، خورشیدالاسلام اور محمد حسن سے قطع نظر اگر اس سے بھی پہلے رومانی نثر کے دور پر نظر ڈالی جائے تو سجاد انصاری کے محشر خیال اور میاں بشیر احمد کے طلسم زندگی تک میں ہمیں ایک نو دریافت فکری اور تخلیقی رمز کی موجودگی کا سراغ ملتاہے۔ وزیر آغا نثری نظم کو نثم کہتے ہیں اور نثری نظم کی اصطلاح کو خود تردیدی سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف اچھے بھلے کئی شعرا نثری نظم کو ایک جسارت بے جا سے زیادہ کا منصب دینے پر تیار نہیں ہیں اور اس امید میں ہیں کہ یہ تجربہ آپ اپنی موت مر جائےگا۔ لیکن اب آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں دو چار باتوں پر بھی غور کر لینا چاہئے۔
ایک تو یہ کہ اظہار کی ہرہیئت جس کے خلاف رد عمل ہو، بے مقصد اور بے کار نہیں ہوتی۔ یہاں ایک بات میں دوبارہ یاد دلانا چاہوں گا کہ نثری نظم کے قصے کو آزاد غزل یا نثری غزل کے قصے سے الگ رکھنا چاہئے۔ دونوں کو ایک لاٹھی سے ہانکنا غلط مبحث پیدا کرنا ہے کیونکہ غزل، بہرحال، صدیوں کے سفر اور احساس و اظہار کے نئے منطقوں سے شناسائی کے باوجود ایک مقررہ ہیئت کی شاعری ہے۔ ہمیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ کرسی کو میز بنا دیں۔ دوسرے یہ کہ نظم کی صنف، اٹھارویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک جو بس چند برسوں میں اختتام کو پہنچا چاہتی ہے، کسی بھی دور میں کسی ایک اور مسلمہ اور معینہ ہیئت کی پابند نہیں رہی۔ قصیدہ، مثنوی، مرثیہ، غزل یا یوں کہئے کہ مسدس، مخمس، مربع اور ثلاثی یہاں تک کہ ایک اکیلا مصرعہ بھی (ادھار مانگی ہوئی ہر خوشی کا سود ہے غم۔۔۔ عمیق حنفی) بہ طور ہیئت نظم کی اساس بن سکتا ہے۔
علاوہ ازیں کیا عجب ہے کہ نثری نظم کا تجربہ کسی بڑے شاعر کے ظہور کی خبر لے آئے۔ پابلونر دوا کے جادوئی مرتبے تک ابھی اردو نظم کو پہنچنا باقی ہے۔ کیا تم پورا چاند نہ دیکھوگے کی شکل میں فہمیدہ ریاض نے اسی سمت میں قدم بڑھایا تھا۔ یہ سفر ادھورا رہا۔ لیکن ایک عریضۂ ناتمام کے طور پر بھی یہ نظم ایک غیر معمولی تخلیقی طاقت اور جذبے کے جلال و اضطراب کی خبر دیتی ہے۔ نسرین انجم بھٹی کی بہت سی نظمیں (خاص کرچو ہے۔ ان کا مجموعہ بن باس حال میں سامنے آیا) کشور ناہید کے کم سے کم تین مجموعے (علامتوں کے درمیان، سیاہ حاشیے میں گلابی رنگ، خیالی شخص سے مقابلہ)، زاہد ڈار کی محبت اور مایوسی کی نظمیں، شائستہ حبیب کی سورج پر دستک، عذرا عباس کی نیند کی مسافتیں اور میز پر رکھے ہاتھ، اصغر ندیم سید کی جنگل کے اس پار جنگل، افضال احمد سید کی چھٹی ہوئی تاریخ اور دو زبانوں میں سزائے موت، ذیشان ساحل کی بے حد حیران کن نظموں کا مجموعہ چڑیوں کا شور، عتیق اللہ کا بین کرتا ہوا شہر، سارا شگفتہ کی کتاب آنکھیں، صادق کا مجموعہ کشاد اور احمد فواد کی کتاب یہ کوئی کتاب نہیں۔۔۔ ان سب کے نام ذہن پر زور ڈالے بغیر یاد آتے ہیں۔
اسد محمد خان، جاوید شاہین اور سرمد صہبائی سے سعیدالدین تک (جن کی نظمیں اجمل کمال کے آج میں نظر سے گزریں اور حواس کو مرتعش کر گئیں) ہمیں اسی تاثر سے دوچار کرتے ہیں کہ نئی نظم نے نثری نظم کی شکل میں خود کو ایک نئی سطح پر تلاش کیا ہے۔ اس تلاش کا نمایاں ترین پہلو ایک futuristic یا ایک قسم کی مستقبلیت کے عنصر سے ذہنی اور جذباتی وابستگی ہے اور اس سطح پر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اردو کی نثری نظم آواں گارد میلانات کے ایک مرکزی ضابطے سے خود کو قریب تر لانا چاہتی ہے۔ اظہار کے اسالیب، بے شک، ماضی اور حال کا عکس ہوتے ہیں، لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ایک نئے اسلوب کی تشکیل کے واسطے سے ایک نئے تخلیقی، فکری اور جذباتی مستقبل کی جستجو کی جا رہی ہو۔ انیسویں صدی میں ہمارے بزرگ بھی یہی کچھ کر رہے تھے اور ان کے نزدیک اظہار کے نئے ذرائع تک رسائی اپنی قوم کے لئے ایک نئی زندگی، ایک نئے اجتماعی ماحول کی تعمیر سے عبارت تھی۔
ایک اہم نکتہ جو اس بحث سے نکلتا ہے اور جس کا تجزیہ کئے بغیر ہم آزاد اور حالی کے بعد سے اب تک کی شاعری کے بنیادی سروکار اور میلان کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے، یہ ہے کہ جدید نظم کی پوری روایت میں غالب ترین عنصر کی حیثیت تفکر کو حاصل رہی ہے۔ کیا حالی، اکبر، اقبال اور جوش اور کیا راشد، فیض اور اخترالایمان اور پھر کیا ہمارے عہد کی برہم اور بے قرار روحیں، یہ سب کے سب اپنی نظموں کے ذریعے ہمیں کسی نہ کسی باب الافکار تک لے جانا چاہتے ہیں۔ خود کچھ سوچ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سوچ بچار کے اس سلسلے میں ان کے ساتھ ہم بھی اپنے مستقبل کے ساتھ شامل ہوں۔ اس عہد کی نثری نظموں کے لہجے اور آہنگ تک میں تفکر کے آثار دیکھے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ، یہاں یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ نثری نظم ایک نئے تخلیقی کلچر کا خاکہ ترتیب دے رہی ہے۔ اور اس کلچر کی اساس جس شعریات کے اصولوں پر قائم ہوگی، وہ پہلی جنگ عظیم کے بعد کی شاعری میں صورت پذیر ہونے والی Vehicle aesthetics یا Type-writer aesthetics سے آگے کی چیز ہوگی۔
یہ نظمیں ایک تخلیقی تبصرے، بیان (Statement)، تنقیدیے (CRITIQUE) یا صرف ایک سرگوشی اور خودکلامی کے طور پر بھی پڑھی جا سکتی ہیں اور ان کی جمالیاتی حیثیت اور تخلیقی مضمرات کو متعین کرنے کے لئے ہمیں ایک نیا منشور مرتب کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ان نظموں کے واسطے سے جذبات کا یا تصورات کا جو مرکب سامنے آیا ہے، زمانے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اس میں بھی تبدیلی آئی ہے اور اس نوع کے روایتی مرکبات کی بنیاد پر ہم ان کے اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ ہر نظم کی طرح، ان نظموں میں بھی ایک مرکزی جذبے کے ساتھ بہت سے ذیلی جذبے سرگرم اظہار ہیں اور ایک مرکزی ارادے (رسمی اصطلاح کے مطابق منشائے مصنف) کے ساتھ ایک نئے آہنگ، مزاج، میلان طبع اور ماحول کے عناصر بھی شامل ہیں۔ انہیں سمجھے بغیر ہم نظم کا تیا پانچہ (اصطلاحاً (Deconstruction) تو کر سکتے ہیں، نظم کے مفہوم تک شاید نہیں پہنچ سکتے۔