نسب یہ ہے کہ وہ دشمن کو کم نسب نہ کہے

نسب یہ ہے کہ وہ دشمن کو کم نسب نہ کہے
عجب یہ ہے کہ یہ دنیا اسے عجب نہ کہے


مری نگاہ جنوں میں یہ بات بھول گئی
کہ کب کہے مرے جذبات اور کب نہ کہے


وہ برہمی کی جو اک داستاں تھی ختم ہوئی
اسے کہو کہ وہ اس سے وہ بات اب نہ کہے


وہ بے زبان نہیں ہے تو کم نظر ہوگا
جو چشم و لب ترے دیکھے مگر غضب نہ کہے


اسے بھی ہے مرے جینے کی آرزو شہپرؔ
سکون ہے کہ یہ اشعار بے سبب نہ کہے