نقش جب زخم بنا زخم بھی ناسور ہوا
نقش جب زخم بنا زخم بھی ناسور ہوا
جا کے تب کوئی مسیحائی پہ مجبور ہوا
پر پرواز بھی تب تک نہ کھلے تھے جب تک
بیٹھ جانے کی تھکن سے نہ بدن چور ہوا
دن کی چھلنی میں ترا لمحۂ فرصت چھانے
دل تو لگتا ہے اسی کام پہ مامور ہوا
دامن دوست ہے اک ذہن کے پردوں میں کہیں
جس قدر ہاتھ بڑھایا ہے سو وہ دور ہوا
کبھی بے سمت نہ ہونے کی دعا مانگی تھی
کثرت سمت سے رستہ مرا معمور ہوا
چیخنا چاہتی ہوں چیخ نہیں پاتی ہوں
خواب ہوتا تھا حقیقت کو بھی منظور ہوا