نقش بر آب
سال ہا سال محبت جو بنا کرتی ہے
رشتۂ قلب و نظر پلۂ ریشم کی طرح
ایک جھونکا بھی حوادث کا اسے کافی ہے
پہلوئے گل میں دھڑکتی ہوئی شبنم کی طرح
یہ محبت کے بنائے ہوئے ایوان بلند
ایک ٹھوکر بھی زمانے کی نہیں سہہ سکتے
آبگینے یہ بہت نازک و نارستہ ہیں
موج کی گود میں تا دیر نہیں رہ سکتے
گرم رفتار سبک سیر کے راہوار حیات
آرزوؤں کے گھروندے کو یہ ڈھ دے نہ کہیں
تلخ تر جام کے ہاتھوں میں نظام نو کے
خواب کی حلاوت کو دے نہ کہیں
عشق کے ہاتھ میں روشن ہے جو ننھا سا دیا
عقل کی تند ہوا اس کو بجھا ہی دے گی
تو نے دیکھی ہی نہیں پنجۂ عسرت کی گرفت
روح کو قید تمنا سے چھڑا ہی دے گی
گل ہی جائے گی کسی روز جنوں کی زنجیر
وقت ہر خواب کی تعبیر بتا دیتا ہے
کروٹیں لیتا ہے احساس جو بیداری کا
لوریاں دے کے امنگوں کو سلا دیتا ہے
نقش بر آب ہے وابستگئ حسن و شباب
نکہت گل کی طرح عشق ہے پابند ہوا
اس سے بہتر تھا کہ مجھ سے تجھے نفرت ہوتی
پھول مرجھاتے ہیں کانٹا نہیں مرجھا سکتا
تیر نفرت کا رہا کرتا ہے دل میں پیوست
شمع یہ تیرگیٔ غم میں بھی تابندہ رہے
دست نفرت کی بنائی ہوئی دیوار ادا
سنگ و آہن کی طرح پختہ و پائندہ رہے
عزم ہو جائیں گے افسردہ ارادے مفلوج
گوش لذت کش گلبانگ جلاجل کیوں ہو
منزلیں اور بھی کتنی ہیں محبت کے سوا
روح آزاد گرفتار سلاسل کیوں ہو