ننھی چیزیں
تھا اندھیرا ہر طرف
راہ بھی ملتی نہ تھی
ایک ننھا سا دیا
روشن ہوا
اور اندھیرا چھٹ گیا
اک مسافر رات کو
کھا رہا تھا ٹھوکریں
چاند کی ننھی کرن
چھٹکی ذرا
اور رستہ مل گیا
تھا پریشاں دیر سے
ایک دہقاں دھوپ میں
ایک ٹکڑا ابر کا
آیا وہاں اور سایہ ہو گیا
باغ میں اڑتی تھی دھول
سارے پتے زرد تھے
ایک ننھی سی کلی
چٹکی جو کلی
مسکرا اٹھا چمن
نہ تھا دل میں ولولہ
زندگی خاموشی تھی
ایک ننھی سی ہنسی
نغمہ بنی
کھل اٹھی دل کی کلی
ایک دیا
ایک کرن
ایک ٹکڑا ابر کا
اک کلی
ایک ننھی سی ہنسی
ہیں نشان زندگی
روشنی ہی روشنی