کہانی: نیک بنو، نیکی پھیلاؤ سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے
سورج کی سنہر ی کرنیں چار سو پھیلیں تو لو گو ں نے دیکھا کہ گا ؤ ں کے شمال میں ندی کے کنارے را تو ں رات کسی نے گھا س پھو نس کی جھو نپڑی بنا دی ہے ۔ پہلے تولوگ گھبرا ئے کہ رات بھر میں یہ کیسے ہو گیا ہے ؟ پھر چند لو گ ہمت کرکے جھو نپڑی کے پا س پہنچے تو بہت سے قدمو ں کی آوازیں سن کر جھو نپڑی سے ایک بزرگ با ہر نکلے ، انہو ں نے سب کو مخا طب کر کے ، السلام علیکم کہا ۔
سبھی لو گ حیرت سے ایک دوسرے کے دیکھنے لگے کہ یہ کو ن بزرگ ہیں ؟ جنہو ں نے خو دپہل کر کے انہیں سلام کیا ہے ۔
بابا جی ، آ پ کو ن ہیں اور کہا ں سے آ ئے ہیں ؟ ایک آدمی نے ہمت کرکے پو چھ ہی لیا ۔
بیٹا، اللہ کی زمین بڑی وسیع ہے ۔ بیوی ہے اور نہ بچے ہیں اس لیے نجا نے کب سے چل پھر کر زندگی گزار رہا ہو ں ۔ کبھی اس شہر کبھی اس نگر ۔ اللہ کے بندو ں تک اللہ کا پیغام پہنچانے کی تڑپ ہے جو کسی لمحے مجھے چین نہیں لینے دیتی ۔
بابا جی ۔ آ پ نے خوا مخواہ جھو نپڑی بنانے کی تکلیف کی ہے ۔ ہم آ پ کے لیے گا ؤ ں میں رہا ئش اور کھانے پینے کا انتظام کر دیتے اور پھر آ پ اپنے طور پر کھانے پینے کا کیسے بند وبست کریں گے ۔
گاؤ ں کے نمبر دار نے پو چھا ۔
ہم سب کو پیدا کرنے والے خالق و مالک اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے رزق کا انتظام کیا ہو ا ہے ۔ میں اپنی گزر بسر کے لئے مختلف تنکو ں اور رنگ برنگے دھا گو ں کی مدد سے چھو ٹی مو ٹی چیزیں بنا کر بیچ لیتا ہو ں ۔ اس سے جو کچھ ملتا ہے اس سے با ٓسانی گزر بسر ہو جا تا ہے ، زیادہ کی مجھے طلب نہیں ہے ، آپ لوگو ں کی پر خلوص پیش کش کا بہت شکرگزار ہو ں ۔ میں تو آپ سے ملنا چاہتا تھا کہ آ پ لوگ خو د ہی ادھر چلے آئے ۔ باباجی نے کہا ۔
آپ آئیں سو بار آئیں ، سبھی نےایک آواز ہو کر کہا ۔
اگلے روز بابا جی نے کندھے پر سفید رومال ڈالا اور گا ؤ ں کی طرف چل دیے ۔ انہو ں نے دیکھا کہ کچھ عورتیں ننگے سر ادھر اُدھر کاموں میں مصروف تھیں ۔ بابا جی نے وہا ں رک کر عورتو ں سے مخا طب ہو کر کہا ،
بیٹا ، ہمارے پیارے نبی ﷺ نے عورتو ں کو گھر سے با ہر ننگے سر گھو منے پھرنے سے منع فرمایا ہے ۔
ہمیں تو آج تک کسی نے ایسا کرنے سے نہیں روکا ، آ پ بھلا ہمیں منع کرنے والے کو ن ہیں ؟
ایک عورت نےدوسرو ں کی نما ئندگی کرتے ہو ئے کہا ۔
بیٹا ، اچھی اور صحیح بات کا جب بھی پتہ چلے اسے اسی وقت اختیا ر کر لینا چا ہیے ۔ بابا جی نے پیار سے سمجھا یا اور آگے چل دیے ۔ ابھی تھو ڑی دور گئے ہو ں گے کہ راستے میں چند بچے گو لیا ں کھیل رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ ایک دوسرے کو گا لیا ں بھی دے رہے تھے ۔ با با جی نے قریب جا کر انہیں السلام علیکم ، کہا اور پیار سے سمجھا یا کہ اچھے بچے فضول اور بے کار کامو ں میں وقت ضا ئع نہیں کرتے ۔ پڑھو لکھو اور فارغ وقت میں گھر کے کام کاج میں ما ں با پ کا ہاتھ بٹا ؤ ۔ بچو ں نے یہ بات پہلی با ر سنی تھی ۔ یہ بات انہیں اتنی اچھی لگی کہ اسی وقت تما م بچو ں نے گو لیا ں قریبی جو ہڑ میں پھینک دیں اور اپنے اپنے گھر کی راہ لی ۔
دن ڈھلنےلگا تھا ، بابا جی نے دن بھر مختلف قسم کے لو گو ں سے ملا قات اور ان سے با ت چیت کی ۔ کسی نے ان کی با تو ں کو بہت پسند کیا اور کو ئی نا پسندیدگی کے انداز میں تیوریا ں چڑھا کر وہاں سے چلا گیا ۔ اگلے روز با با جی پھر گا ؤ ں کی طرف چل دیے اور پھر یہ روز کا معمو ل بن گیا ۔ چند ہی دنو ں میں جہا لت اور برا ئیو ں کی آما جگا ہ بنے ہو ئے گا ؤ ں میں نیکی اور اچھا ئی کی خوشبو پھیل گئی نفرت اور عداوت کی جگہ محبت اور پیار نے لے لی۔
دن با با جی نے صبح ہی صبح گاؤں کا رخ کیا ۔ لو گ ابھی نما ز اور ناشتے سے فا رغ ہو کر معمو لات زندگی شرو ع کرنے والے تھے کہ با با جی نے گا ؤں کے درمیا ن مو جو د کھلے میدان میں لو گو ں کو جمع کیا اور ان سے مخا طب ہو کر کہا ۔
کچھ عرصہ پہلے میں ایک اجنبی اور پردیسی کی طر ح آ پ کے گا ؤ ں میں آیا تھا ۔ آ پ نے مجھے جو عزت واحترام دیا میں اس کے لئے آپ سب کا شکر گزار ہو ں ۔ میں توسدا کا مسافر ہو ں ۔ آج آپ سے جدا ہو کر کسی اور گا ؤ ں کا رخ کرنے لگا ہو ں ۔ مجھے امید ہے کہ نیکی کی جو شمع یہا ں رو شن کر کے جا رہا ہو ں آپ کبھی اسے بجھنے نہ دیں گے ۔ جب تک آپ کے ہا ں نیکی کا چلن عام رہے گا ۔ اس وقت تک سارا گا ؤ ں اخو ت اور بھا ئی چارے کی روشنی سے جگماتا رہے گا ۔ با با جی نے یہ کہا اور اپنے سامان کی مختصر سی پو ٹلی کندھے پر رکھی اور لو گو ں کے اسرار کے با وجود خدا حا فظ کہہ کر دور بہت دور چل دیے ۔
بابا جی کی جدا ئی کا سو چ کر گا ؤں کے سبھی لو گو ں کی آ نکھو ں میں آنسوؤں کے مو تی جھلمانے لگے ۔ ایسے میں گا ؤ ں کے امام مسجد نے رندھی ہو آواز میں قرآن مجید کی ایک آیت تلاوت کی
ومن احسن قو لا ممن دعا الی اللہ وعمل صالحا وقال اننی من المسلمین
اور اس کا ترجمہ بتا نے لگے :
ترجمہ : اس سے بہتر کو نسی با ت ہو گی ، جس نے لو گو ں کو نیکی کی طرف بلا یا اور خود بھی نیک کا م کئے اور کہا کہ میں فرما نبردار و ں میں سے ہو ں ۔
لو گو ں نے یہ سنا تو سبھی نے دل ہی دل میں یہ عزم کیا کہ وہ سب با با جی کے نقش قدم پر چلتے ہو ئے خو د بھی نیک بنیں گے اور دوسرو ں کو بھی نیک بنا ئیں گے ۔