نئی جستجو کا المیہ

تخیل کی اونچی اڑانوں سے آگے
جہاں خواب ٹوٹے پڑے ہیں
مری آرزو تھی وہاں جا کے دیکھوں
رفیقوں رقیبوں کے چہرے
مری ہر بغاوت پہ ہنستے رہے ہیں
میں رفتار کے دائرے توڑ کر
خدا سے پرے جا چکا ہوں


فرشتوں کی پہلی بغاوت کا منظر مجھے یاد آیا
کچھ ایسا لگا جیسے آدم کا سارا المیہ
نئی جستجو کے سہارے ہمیشہ رہے گا


ہر اک بار باغی نئے بن کے
وہ داستاں پھر سے دہرا رہے ہیں
خود ابلیس حیران ہے
خیر و شر کی نئی کش مکش میں الجھ کر ہر اک بار یہ سوچتا ہے
''خدایا! میں مظلوم ہوں
میری فطرت میں جو سرکشی تھی وہ آدم سے تھی
تیرا بندہ ہوں عاجز ہوں تو رحم کر
دیکھ ایک مدت سے آدم کے بیٹے
تجھے اور مجھے بھول کر
صرف بے نام بے سود سے جستجو کے سہارے بڑھے جا رہے ہیں
انہیں تیری رحمت تیرا قہر کچھ بھی ڈراتا نہیں
مجھے آج پہلی دفعہ ڈر لگا ہے
کہیں یہ مجھے اور تجھے قید کر کے
صرف تخلیق کے جرم میں وہ سزا دیں
جس کو لاکھوں برس سے یہ سہتے چلے آ رہے ہیں!''