نہیں ملتے شعورؔ آنسو بہاتے
نہیں ملتے شعورؔ آنسو بہاتے
نظر آتے ہیں ہنستے مسکراتے
وہ گھنٹوں بیٹھتے ہیں دوستوں میں
مگر دیکھا اکیلے آتے جاتے
نکل جاتے ہیں نا معلوم جانب
وہ گرد و پیش سے نظریں بچاتے
جسے کہتے ہیں لوگ ام الخبائث
رہے ان کے اسی سے رشتے ناطے
وہ کیا جنات سے کرتے ہیں باتیں
انہیں پایا گیا ہے بدبداتے
اٹھا پائے نہ اپنا بوجھ بھی وہ
بھلا کیا دوسروں کے کام آتے
عیاں تھا بے خودی سے حال ان کا
کوئی کیا پوچھتا وہ کیا بتاتے
بتا لیتے ہیں موسم ہر طرح کا
عنادل بوستاں میں روتے گاتے
شعورؔ آپ آئے ہیں ملنے سر شام
ہمارے پاس ہوتی تو پلاتے