نہیں کہ اپنا زمانہ بھی تو نہیں آیا
نہیں کہ اپنا زمانہ بھی تو نہیں آیا
ہمیں کسی سے نبھانا بھی تو نہیں آیا
جلا کے رکھ لیا ہاتھوں کے ساتھ دامن تک
تمہیں چراغ بجھانا بھی تو نہیں آیا
نئے مکان بنائے تو فاصلوں کی طرح
ہمیں یہ شہر بسانا بھی تو نہیں آیا
وہ پوچھتا تھا مری آنکھ بھیگنے کا سبب
مجھے بہانہ بنانا بھی تو نہیں آیا
وسیمؔ دیکھنا مڑ مڑ کے وہ اسی کی طرف
کسی کو چھوڑ کے جانا بھی تو نہیں آیا