نہیں آسماں تری چال میں نہیں آؤں گا

نہیں آسماں تری چال میں نہیں آؤں گا
میں پلٹ کے اب کسی حال میں نہیں آؤں گا


مری ابتدا مری انتہا کہیں اور ہے
میں شمارۂ مہ و سال میں نہیں آؤں گا


ابھی اک عذاب سے ہے سفر اک عذاب تک
ابھی رنگ شام زوال میں نہیں آؤں گا


وہی حالتیں وہی صورتیں ہیں نگاہ میں
کسی اور صورت حال میں نہیں آؤں گا


مجھے قید کرنے کی زحمتیں نہ اٹھائیے
نہیں آؤں گا کسی جال میں نہیں آؤں گا


میں خیال و خواب حصار سے بھی نکل چکا
سو کسی کے خواب و خیال میں نہیں آؤں گا


نہ ہو بدگماں مری داد خواہی ہجر سے
مری جاں میں شوق وصال میں نہیں آؤں گا