نفرت کے سلسلے یہ عداوت کے سلسلے

نفرت کے سلسلے یہ عداوت کے سلسلے
جانے کہاں گئے وہ اخوت کے سلسلے


میری سبھی دعاؤں کا الٹا اثر ہوا
ٹوٹے چلے گئے تیری چاہت کے سلسلے


قوس قزح گلاب رتیں چاہتیں تری
اب خواب ہو گئے وہ رفاقت کے سلسلے


تم سے بچھڑ کے زیست میں تنہا ہی رہ گئے
کب رکھ سکے کسی سے محبت کے سلسلے


چنگاری کس نے پھینکی لگائی تھی کس نے آگ
سب بھول کر بڑھاتے ہیں الفت کے سلسلے


غافل مباش اپنے حوالوں سے لے سبق
بکھرے پڑے ہیں عزم و شجاعت کے سلسلے


رشتہ کتاب و خامہ سے مضبوط کیجئے
پھر استوار ہوں گے فراست کے سلسلے