یورپ میں اسلاموفوبیا کو سیاسی ہتھیار کے طور پر کیسے استعمال کیا جارہا ہے؟
فرانس نے اگلے چھ مہینوں کے لیے یورپی یونین کی صدارت سنبھال لی ہے، اس صدارت کو صدر ایمانوئل میکرون یورپ کو دنیا میں زیادہ خود مختار بنانے کے اپنے ہدف کے لیے استعمال کرنے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ لیکن یورپی مسلمان ایک اور وجہ سے یورپی یونین کی سربراہی فرانس کو ملنے سے پریشان ہیں، انہیں خدشہ ہے کہ فرانس کی مسلم مخالف سیاسی مہم جوئی یورپی یونین کی پالیسی سازی میں خطرناک حد تک پھیل جائے گی۔
فرانس کے صدارتی انتخابات کے دوران بہت سے فرانسیسی سیاست دانوں نے اسلامو فوبیا کو انتخابی حکمت عملی کے طور پر اپنایا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں زہریلی بحثیں، نسل پرستی اور امیگریشن کی سخت ترین پالیسیاں ایسے نفرت انگیز دعوے ہیں جو انتخابات میں بیچنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے حوالے سے سخت گیر موقف انتخابات میں کامیابی کی ضمانت سمجھا جارہا ہے اور کہیں بھی، کسی بھی پارٹی یا امیدوار کے اسلام کے بارے میں ذرا سے بھی نرم رویے کو برداشت نہیں کیا جارہا۔ چند روز پہلے ہی میکرون کے سخت گیر وزیر داخلہ جیرالڈ ڈرمینین نے حالیہ ٹیلی ویژن مباحثے کے دوران لی پین پر اسلام کے بارے میں نرم رویے کا الزام لگایا۔ ایک اور معروف امیدوار ایرک زیمور صدارتی مقابلے میں ایک اور بھی زیادہ شیطانی مسلم مخالف ایجنڈا لے کر آئے ہیں، جب کہ گالسٹ ری پبلکن پارٹی کی امیدوارولیری، امیگریشن پر سخت موقف اختیار کر رہی ہیں، اس سے قبل انہوں نے عوامی جگہوں پر برقینی پہننے پر پابندی عائد کر دی تھی۔خود میکرون، جن سے دوبارہ انتخاب جیتنے کی توقع کی جا رہی ہے، پہلے ہی اپنی مسلم دشمن پالیسیوں کے لیے جانے جاتے ہیں، اور ہر طرح سے فرانس کے ساٹھ لاکھ مسلمان شہریوں کی امتیازی شناخت ختم کرنےکے درپے ہیں۔
میکرون کی حکومت فرانس میں اسلامو فوبیا کے خلاف قائم ادارے کو بند کرنے پر بھی بنیادی حقوق کے اداروں کی طرف سے تنقید کی زد میں ہے، جو کہ مسلم مخالف نفرت انگیز جرائم کی رپورٹنگ کرتا ہے۔ اسی طرح نسل پرستی کے خلاف یورپی نیٹ ورک نے فرانسیسی مسلمانوں کے مکمل طور پر "اسلامو فوبک وِچ ہنٹ"Islamophobic Witch-hunt کے بارے میں خبردار کیا ہے اور کہا ہے کہ فرانسیسی حکومت اخوان المسلمون سے غیر ثابت شدہ روابط کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کی زیر قیادت تنظیموں، مساجد، اسکولوں اور یہاں تک کہ مسلمانوں کی ملکیتی اسنیک بارز کو بند کرنے کے لیے ان گنت انتظامی حربے استعمال کر رہی ہے۔
یورپی یونین کی صدارت ملنے کے بعد خدشہ ہے کہ فرانس یورپ بھر میں سخت مسلم دشمن پالیسیوں اور عملی اقدامات پر زور دے گا جہاں پہلے ہی مسلم دشمنی یا اسلاموفوبیا کے اثرات پہلے سے کہیں زیادہ نمایاں نظر آنے شروع ہوچکے ہیں۔مثال کے طور پر آسٹریا میں سابق چانسلر سیباسٹین کرز نے "اسلام میپ" کے نام سے ایک متنازع ویب سائٹ کے ذریعے سیاسی اسلام کے مبینہ عروج کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش کی ہے ۔ اس ویب سائٹ پر 600 سے زیادہ مساجد کے مقامات دکھائے گئے ہیں اور انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مساجد کی نشان دہی مسلمانوں کے خلاف پرتشدد واقعات میں اضافے کا باعث بنا ہے۔ اسی طرح ڈنمارک کے سابق امیگریشن وزیر، انگر سٹوجبرگ کی وجہ شہرت ان کے مسلم دشمن اقدامات اور رویے ہیں۔ انہوں نے غیر قانونی طور پر سیاسی پناہ لینے والے مسلم جوڑوں کے خلاف پوری مہم چلائی اور اس سے پہلے انہوں نے ڈینش مسلمانوں کو رمضان المبارک کے دوران نوکریوں سےجبری رخصت دینے جیسے متنازع ایشوز کھڑے کیے ۔ ایک اور یورپی ملک ہنگری میں وکٹر اوربان اور اس کے اتحادی اسلام کے خلاف طویل عرصے سے نفرت پھیلانے اور مسلم دشمن جذبات کو ابھارنے کی کوشش کررہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ فرانس کا مسلمانوں کے ساتھ مخاصمانہ رویہ یورپی سیاسی منظر نامے پر پھیل رہاہے۔ اسلام کو یا تو’ قومی سیکولر روایات‘ یا’عیسائی یورپ‘ کے لیے خطرہ کے طور پر دیکھا جارہاہے ۔ اس رویے کے اثرات اس قدر نمایاں ہیں کہ مختلف یورپی ممالک میں کوئی بڑی انتخابی فتوحات حاصل کیے بغیر بھی مسلم مخالف جماعتیں مسلمانوں اور تارکین وطن کے بارے میں اپنے مخالفانہ بیانیے کو ملکی سیاست کا مرکز بنانے میں لانے میں کامیاب رہی ہیں۔ سالانہ یورپی اسلامو فوبیا رپورٹ 2020 ، جسے 30 سے زائد یورپی ممالک کے اسکالرز، ماہرین اور سول سوسائٹی کے کارکنوں نے مرتب کیا ہے، یہ بتاتی ہے کہ پورے براعظم میں مسلمانوں کے خلاف نفرت مزید بڑھ رہی ہے اور ہر آنے والا سال اس نفرت میں اضافہ کررہا ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ یورپی مسلمانوں کو نئے سال یعنی 2022کی سخت شروعات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔