نفس ارض و سما ہو جیسے

نفس ارض و سما ہو جیسے
میں نے اک شعر کہا ہو جیسے


جیسے اک چاپ کوئی ڈوب گئی
کوئی دروازہ کھلا ہو جیسے


جیسے ابھرا ہو کوئی سایہ سا
آخری بلب بجھا ہو جیسے


جیسے رکھ دے کوئی آنکھوں پہ قدم
کوئی آہٹ نہ صدا ہو جیسے


اب یہاں کوئی نہیں آئے گا
میں ہوں اور میرا خدا ہو جیسے


میں بھی چپ ہو گیا پا کر تجھ کو
تو بھی کچھ سوچ رہا ہو جیسے


وقت گریہ تری یاد آئی ہے
ساتھ بارش کے ہوا ہو جیسے


کیسا ویران پڑا ہے صحرا
کوئی مجنوں نہ ثناؔ ہو جیسے