نئے اسلوب میں زندہ ہوئے ہیں
نئے اسلوب میں زندہ ہوئے ہیں
تبھی تو حرف آئندہ ہوئے ہیں
طلوع صبح کی امید کم تھی
دعائے شب سے تابندہ ہوئے ہیں
نہ کام آیا جہاں عرض ہنر بھی
لب اظہار شرمندہ ہوئے ہیں
بدن میں جیتے جی جو مر گئے تھے
وہ اپنی روح میں زندہ ہوئے ہیں
ہماری شعلگی سب سے جدا ہے
بجھے ہیں ہم تو سوزندہ ہوئے ہیں
مٹا سکتا نہیں جن کو زمانہ
کچھ ایسے نقش پایندہ ہوئے ہیں
ہمیں سود و زیاں سے کیا سخنؔ ہم
نہ یابندہ نہ گیرندہ ہوئے ہیں