نئے سرے سے پھر آج کیفیؔ ہم اپنی دنیا بسا رہے ہیں

نئے سرے سے پھر آج کیفیؔ ہم اپنی دنیا بسا رہے ہیں
جو کھو چکے اس سے بے خبر ہیں جو رہ گیا وہ لٹا رہے ہیں


نشاط امروز کی قسم ہے کہ دل نے سب محفلیں بھلا دیں
دیے تھے ماضی نے داغ جتنے وہ خود بہ خود مٹتے جا رہے ہیں


خوشا یہ دور شباب ان کا یہ دل نواز التفات ان کا
کہ بے پیے آج ہر قدم پر مرے قدم لڑکھڑا رہے ہیں


ادھر نظر ہے ادھر نظر ہے کچھ اپنی رسوائیوں کا ڈر ہے
جھجک رہے ہیں ٹھٹھک رہے ہیں مگر مری سمت آ رہے ہیں


حیا نے گو جرأت تکلم زبان سے چھین لی ہے لیکن
وہ آنکھوں آنکھوں ہی میں بہت کچھ سنا چکے اور سنا رہے ہیں


شباب ہے اور شادمانی بہار ہے اور کامرانی
بنے ہیں سرشاریٔ مجسم مجھے بھی وہ خود بنا رہے ہیں