ندی پہاڑ گھنے جنگلوں میں چرچا تھا
ندی پہاڑ گھنے جنگلوں میں چرچا تھا
وہ بے گناہ شجر بے لباس کتنا تھا
ملی تھی شاخ ثمر نور جسم و جاں کے لئے
جسے وہ ہاتھ لگا کر بجھا بجھا سا تھا
تمام عمر دل و جاں مراقبے میں رہے
لطیف تر لب و رخسار کا وظیفہ تھا
کچھ اس طرح صف سیارگاں ہوئی برہم
پھر اس کے بعد نہ سورج تھا اور نہ سایہ تھا
جہاں پہ خاک بیاباں خرام کرتی ہے
وہاں پہ تکیۂ مہتاب تھا دریچہ تھا
نئی شریعت جمہور بسنے والی تھی
نئے افق سے وہ خورشیدؔ اگنے والا تھا