ندی کا آب دیا ہے تو کچھ بہاؤ بھی دے

ندی کا آب دیا ہے تو کچھ بہاؤ بھی دے
مری غزل کو نیا پن بھی دے رچاؤ بھی دے


چلا کے سرد ہوا مجھ کو منجمد بھی کر
پگھل کے پھیلنا چاہوں تو اک الاؤ بھی دے


کہ جس کے درد کا احساس تیرے جیسا ہو
کبھی کبھی مری فطرت کو ایسا گھاؤ بھی دے


عذاب سیل مسلسل جو دے رہا ہے مجھے
تو سطح آب پہ چلنے کو ایک ناؤ بھی دے


مسافرت کے کئی مرحلے تمام ہوئے
کہ میری خانہ بدوشی کو اب پڑاؤ بھی دے