نامہ بر کبوتر!
عہد قدیم کی تار برقی اور طیارات! مشاطۂ عالم نے ہمیں کچھ اس طرح اپنی نئی نئی سحر ادائیوں اور دل فریبیوں میں محو کر لیا ہے کہ اس کے عہد گزشتہ کے بہت سے دلچسپ افسانے بالکل خواب و خیال ہو گئے ہیں، حتی کہ نئی دلچسپیوں کی مشغولیت میں کبھی ان کا خیال بھی ہمارے دماغوں میں نہیں گزرتا۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو ٹائٹینک اور امپریس کی غرقابی کا حادثہ سن کر ان چھوٹی چھوٹی کشتیوں کو بھی یاد کر لیتے ہوں گے، جنہیں کبھی بحر خزر اور قلزم کی موجوں میں ان کے باہمت اسلاف کی بحری اوالو العزمیاں بے خوف و خطر ڈال دیتی تھیں؟ یا ان بادبانی جہازوں کی پرانی تصویروں پر ایک نظر ڈال لیتے ہوں گے جو عہد قدیم کی تمدنی ترقیات کے انتہائی سر و سامان تھے اور جن کے ذریعہ بالکل اسی طرح آرام جو اور حیات پسند انسان بڑے بڑے قہار سمندروں کو طے کرتا تھا، جس طرح آج یورپ اور امریکہ کےعیش دوست سیاح انطلانطیک کے طوفانوں پر سے تاش کھیلتے ہوئے اور اس کے ایوان رقص میں سرود و نشاط کی سرگرمیوں کے مزے لوٹتے ہوئے گزرا کرتے ہیں؟ جب کہ ہم میکسم توپوں کے عظیم الشان کارخانوں کا حال پڑھتے ہیں تو ہمیں بہت کم یاد آتا ہے کہ رومیوں نے بیت المقدس کی دیواروں پر منجنیقوں سے پتھر برسائے تھے اور شاید ہم میں صرف تاریخ قدیم کی ورق گردانی کرنے والے اور آثار قدیمہ کے عجائب خانوں کے علماء و مصنفین ہی کو یہ یاد رہا ہوگا کہ کسی زمانے میں انسانوں نے ان فوائد کو حاصل کرنے کے لیے، جو آج پریس کی مشینوں سے حاصل کئے جاتے ہیں، لکڑی کے حروف بنائے تھے اور ان کے ذریعہ ایک تحریر کی متعدد نقلیں بغیر دوبارہ لکھنے کے حاصل کر لیتے تھے! اصل یہ ہے کہ انسان ماضی کو کسی مقدس دیوتے کی طرح پوجتا تو ضرور ہے مگر اس کے افسانوں کو یاد رکھنے کی بہت کم پروا کرتا ہے۔ اس کی اصلی مشغولیت زمانہ حال میں ہوتی ہے۔ وہ صرف موجود اور حاصل ہی کا متلاشی رہتا ہے۔ البتہ مستقبل بھی اس کے لئے دلکش ہے۔ کیونکہ انسان کی دلفریب امیدیں اور سرمست آرزوئیں مستقبل کے ہاتھ میں ہیں، اور اس مخلوق غفلت و فراموشی کے لئے امیدوں کا وجود اس قدر دلچسپ ہوتا ہے کہ بسا اوقات زمانۂ حال کی موجود و حاصل مشغولیتوں کو بھی بھلا کر صرف مستقبل ہی کی حسرتوں میں اپنی پوری عمریں بسر کر دیتا ہے! لیکن انسان کی سب سے بڑی غلطی یہی ہے۔ مستقبل پر اسے اختیار نہیں، اور حال ہی ماضی کا جانشین اور اس کے تر کے کا وارث ہے۔ پس اس کے لئے جو کچھ سرمایۂ فلاح و مراد ہے، وہ صرف ماضی ہی کی یاد اور اس کے نتائج و عبرت کے درس و بصیرت میں رکھا گیا ہے۔ اسی لئے نوع انسان کی سب سے بڑی کتاب ہدایت نے بار بار واقعات گزشتہ، تاریخ حوادث، اور سوانح ماضیہ کے یاد رکھنے اور سوچنے اور سمجھنے کی وصیت کی۔ قل سیروا فی الارض فانظروا کیف کان عاقبۃ الذین من قبل (۳۰۔ ۳۱) خدا کی زمین پر پھرو اور سیر کرو اور دیکھو کہ جو آبادیاں اور اقوام تم سے پہلی تھیں، ان کا نتیجہ کیا ہوا؟ او لم یسیروا فی الارض فانظروا کیف کان عاقبہ الذین من قبلہم، و کانوا اشد منہم قوۃ (۳۵۔ ۴۳) کیا لوگ زمین پر سیاحت نہیں کرتے اور نہیں دیکھتے کہ جو قومیں ان سے پہلے تھیں ان کا کیا نتیجہ ہوا؟ حالانکہ وہ ان سے قوت و عظمت میں کہیں بڑھی ہوئی تھیں! پھر جابجا واقعات ماضیہ کی طرف اشارہ کر کے تاریخ گزشتگان پر توجہ دلائی اور کہا کہ فاقصص القصص لعلہم یتفکرون (۷، ۱۷۵) لقد کان فی قصصہم عبرۃ الاولی الباب(۱۱۱، ۱۳) ان فی ذالک لایات لقوم یسمعون (۶۷، ۱۰) دنیا نے ہمیشہ اپنے کاموں اور ضرورتوں کو پورا کیا ہے۔ جب کہ عجیب و غریب آلات و وسائل کار نہ تھے جو آج ہم اپنے چاروں طرف دیکھ رہے ہیں، جب بھی دنیا اسی طرح آباد تھی جیسی کہ اب آباد ہے اور جب بھی بالکل اسی طرح اس کی تمام ضرورتیں پوری ہوتی تھیں جس طرح کہ اب پوری ہو رہی ہیں۔ موجودہ عہد میں جب کہ سفر کے لئے برق رفتار ریل اور اسٹیمر، خبر رسانی کے لئے تار برقی اور لاسلکی، اشاعت علوم و فنون کے لئے پریس اور مطبوعات اور اسی طرح ہر انسانی احتیاج کے لئے انتہائی وسائل و ذرائع موجود ہیں اور جب کہ ہم ان تمام نئے وسائل و اسباب کے اپنی زندگی میں کچھ اس طرح عادی ہو گئے ہیں کہ اگر ایک دن کے لئے بھی یہ ہم سے واپس لے لئے جائیں تو ہم نقل و حرکت اور کاروبار زندگی سے بالکل معذور ہو جائیں تو بسا اوقات یہ خیال کر کے ہمیں تعجب ہوتا ہے کہ جس زمانے میں یہ چیزیں دنیا والوں کے پاس نہ تھیں اس وقت کیونکر ان کی زندگی بسر ہوتی تھی؟ کیوں کر وہ سفر کرتے تھے، کیوں کر ضروری خبروں کو حاصل کرتے تھے؟ یہ کیسے ممکن تھا کہ بغیر پریس کے اور بغیر چھپی ہوئی کتابوں کی بڑی بڑی دکانوں کے وہ علم حاصل کرتے تھے اور اپنے عہد سے پہلوں کی اور اپنے معاصروں کی تصنیفات مطالعہ کے لیے مہیا ہو جاتی تھیں؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس وقت دنیا میں اسباب و وسائل میں سے کچھ بھی نہ تھا، اس وقت بھی دنیا اور دنیا والوں کی ضرورتیں پوری ہوتی تھیں۔ جب کہ چند ابتدائی وسائل پیدا ہوئے، جب بھی اسی طرح دنیا نے امن اور چین سے زندگی کاٹی اور پھر جب کہ یہ سب کچھ موجود نہ تھا جس کی ہماری زندگی اس قدر عادی ہو گئی ہے تو اس وقت بھی دنیا اپنے کاموں کو اسی طرح بغیر بھاپ اور بجلی کے انجام دے لیتی تھی، جس طرح آج قدم قدم پر ان عظیم الشان طاقتوں سے ہم مدد لیتے ہیں اور ان پر مغرور ہیں۔ یہ کیسی عجیب مگر دلچسپ بات ہے کہ جو کام آج انسان بجلی اور بھاپ کی حیرت انگیز قوتوں سے لینے پر نازاں ہے وہ کسی زمانے میں ایک نہایت معمولی اور حقیر جانور سے لیا جاتا تھا اور جب کہ ریل کی گاڑیاں ڈاک کے تھیلے لے کر نہیں جاتی تھیں اور تار کے سلسلوں نے دور دراز ملکوں میں باہم خبر رسانی کو اس طرح آسان نہیں کر دیا تھا، تو نامہ بر کبوتروں کے غول تھے، جو اپنی نازک نازک گردنوں میں خطوط کی امانت لے کر اور بڑے بڑے میدانوں اور دریاؤں پر سے گزر کے مکتوب الیہ تک پہنچتے تھے، اور جس طرح آج تار برقی کے ہر جگہ اسٹیشن ہیں، بالکل اس طرح ان بے زبان پیام بروں کے اڑنے اور اترنے کے لیے بلندیوں پر اسٹیشن بنائے جاتے تھے۔ نامہ بر کبوتروں کا وجود عہد قدیم کی ایک نہایت مشہور اور بڑی ہی دلچسپ کہانی ہے۔ اس کا سلسلہ نصف صدی پیشتر تک بڑی بڑی آبادیوں میں جاری تھا۔ اب بھی دنیا سے بالکل مفقود نہیں ہوا ہے۔ بڑی بڑی لڑائیوں اور جنگی حصاروں کے زمانے میں ان سے کام لینا پڑتا ہے، جب نئی دنیا کی بڑی بڑی قیمتی اور مغرورانہ ایجادیں کام دینے سے بالکل عاجز ہو جاتی ہیں۔ حکومت فرانس نے تو اب تک ان کے باقاعدہ اہتمام اور پرورش کے کام کو باقی و جاری رکھا ہے۔ ان امانت دار پیامبروں نے دنیا میں خبر رسانی کی عجیب عجیب خدمتیں انجام دی ہیں اور احسان فراموش انسان کو بڑی بڑی ہلاکتوں سے بچایا ہے۔ جہاں انسان کی قوتیں کام نہ دے سکیں، وہاں ان کی حقیر ہستی کام آ گئی۔ ہمارے عالم حسن و عشق کے راز دارانہ پیغاموں کے لیے اکثر انہیں سفیروں سے کام لیا گیا ہے۔ عشاق بے صبر کو ان کا انتظار قاصد بے مہر کے انتظار سے کچھ کم شاق نہیں ہوتا۔ شعراء کی کائنات خیال میں بھی خبر رسانی و پیامبری صرف انہی کے سپرد کر دی گئی ہے اور فارسی شاعری میں تو ’’عظیم الشان‘‘ بلبل کے بعد اگر کسی دوسرے وجود کو جگہ ملی ہے تو وہ یہی مسکین کبوتر ہے۔ مسلمانوں نے بھی اپنے عہد تمدن میں ان پیامبروں سے بڑے بڑے کام لیے تھے۔ حتیٰ کہ نامہ بر کبوتروں کے اقسام و تربیت کا کام ایک مستقل فن بن گیا تھا جس میں متعدد کتابیں بھی تصنیف کی گئیں۔ ان کا ذکر تاریخوں میں موجود ہے۔ حال میں رسالہ ’’سائنٹفک امریکن‘‘ کے ایک مضمون نگار نے نامہ بر کبوتروں کے متعلق ایک نہایت دلچسپ مضمون لکھا ہے اور بہت سی تصویریں بھی دی ہیں۔ اسے دیکھ کر مسلمانوں کے عہد گزشتہ کی وہ ترقیات یادا ٓگئیں جن کا تفصیلی تذکرہ سیرطی اور مقریزی وغیرہ نے مصر کی تاریخوں میں کیا ہے۔ ہم سب سے پہلے اس مضمون کا ترجمہ ہدیہ قارئین کرام کرتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرے نمبر میں مسلمانوں کے عہد کی ترقیات تفصیلی طور پر درج کریں گے، اور ان واقعات کا بھی حال لکھیں گے جن میں مسلمانوں نے نامہ بر کبوتروں سے بڑے بڑے کام لیے تھے اور ان کی پرورش و تربیت کو ایک قاعدہ فن بنا دیا تھا۔ فرانس میں نامہ بر کبوتروں کی درس گاہسائنٹفک امریکن کا مقالہ نگار لکھتا ہے، ’’یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ عہد علمی میں جب کہ تار برقی اور ہوائی طیارات کی ایجادات نے دنیا کے تمام گوشوں کو ایک کر دیا ہے، ان تیز رو اور وفادار پیغامبروں کی کچھ ضرورت نہ رہی، جنہوں نےجنگ جرمنی و فرانس میں بڑی بڑی گراں قدر خدمات انجام دی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کا یہی خیال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نئی ایجادات نے حالت بدل دی ہے اور اب نامہ بر کبوتر صرف چند بوڑھے شکاریوں ہی کے کام کے رہ گئے ہیں۔ مگر ایسا خیال کرنا بہت بڑی غلطی ہوگی۔ جو توجہ کہ اس وقت یورپ کی حکومتیں خصوصاً حکومت فرانس ان پرندوں پر کر رہی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک وہ خدمت فراموش نہیں ہوئی ہے جو ان مسکین پرندوں نے حملہ ٔجرمنی کے زمانے میں محصورین پیرس کی انجام دی تھی۔ اس وقت فرانس کے یہاں ۸۲ فوجی کبوتر خانے ہیں جو اس کے تمام قلعوں میں علی الخصوص ان قلعوں میں جو مشرقی سرحد میں واقع ہیں، پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ کبوتر خانے جو انجینئرنگ کور کے زیر انتظام ہیں، افزائش نسل اور تربیت کے لیے وقف کر دیے گئے ہیں۔ مجھے ان فوجی کبوتر خانوں میں جانے کے لیے اور خاص اجازت حاصل کرنے میں کامیابی ہوئی جو پیرس کے قلعوں کے قریب مقام Vagirard میں واقع ہیں۔ یہاں کے حکمراں افسرنے مجھے اس عجیب جانورکی افزائش اور تربیت کا نظام سمجھا دیا۔ قارئین کرام کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ ان پرندوں پر اس قدر روپیہ صرف کیا جا رہا ہے۔ سپاہی ان ننھے ننھے جانوروں کو بہت چاہتے ہیں اور ان کی تعلیمی ترقی کو سرگرم دلچسپی کے ساتھ دیکھتے رہتے رہیں۔ مقام ویجیر رڈ اور اسی طرح دوسرے مقامات میں کبوتروں کی ڈھابلیاں مکان کی چھت پر ہوتی ہیں۔ ہر یک ڈھابلی ایک روش کے ذریعہ دو حصوں میں منقسم ہوتی ہے۔ فرش پر پلاسٹر اور اس پر خشک اور متوسط درجہ کی خوشنما چٹائیوں کی ایک تہہ ہوتی ہے تاکہ ان کے پنجے نجاست میں آلودہ نہ ہوں۔ پانی کے برتن چھوٹے بنائے گئے ہیں تاکہ کبوتر نہانے میں زیادہ پانی نہ پھینک سکیں۔ لیکن جب کبھی ان ڈھابلیوں کی چھت پر بہتے ہوئے پانی کا سامان ہو جاتا ہے تو بڑے برتن رکھ دیے جاتے ہیں تاکہ وہ ان میں آزادی سے نہا دھوسکیں اور اس طرح مہلک جراثیم سے محفوظ ہو جائیں۔ ہر خانے میں ہوا کی آمد و رفت کا عمدہ انتظام کیا گیا ہے۔ ہر کبوتر کے جوان جوڑے کو ۳۵ فٹ مکعب اور ہر بچہ کو ۹ فٹ مکعب جگہ دی گئی ہے۔ اس خیال سے کہ ہوا کی گردش میں سہولت ہو، پہاڑی یا سرد ملکوں کے علاوہ اور کہیں ڈھابلیوں کی چھتوں پر استر کاری نہیں کی جاتی۔ ان ڈھابلیوں کا مشرق رو ہونا بھی نہایت ضروری ہے۔ تقریباً تمام فرانسیسی ڈھابلیوں کا رخ شمال اور شمال و مشرق نیز طوفان آب کے تمام رخوں کے بالکل مخالف ہوتا۔ اس کا خیال رکھا جاتا ہے کہ یہ ڈھابلیاں ٹیلی گراف یا ٹیلی فون کے دفتر کے پاس نہ بنائی جائیں جن کے تار اڑنے میں ٹکرا کے انہیں زخمی کر سکتے ہیں۔ بڑے بڑے درخت اور اونچی اونچی عمارتیں بھی قابل اعتراض سمجھی جاتی ہیں۔ کیوں کہ ان کی وجہ سے ان کبوتروں کو بآسانی بیٹھنے کے مواقع مل جاتے ہیں اور اڑنے سے جی چرانے لگتے ہیں۔ کترنے والے جانوروں مثلاً Ordents کی روک کے لیے شیشہ دار پنجرے چوکھٹوں میں رکھے جاتے ہیں۔ پاس کی چمنی پر لوہے کا جال تنا رہتا ہے تاکہ چمنی میں بچے نہ گر سکیں۔ تمام کبوتر خانوں اور انجینئرنگ کور کے دفتروں میں ٹلی فون لگا ہوا ہے۔ یہ قاعدہ ہے کہ ہر کبوترخانے میں ۱۰۰ کبوتر ایسے ہوتے ہیں جو فراہمی فوج میں شرکت کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔ اس مفید طاقت کے قائم رکھنے کے لیے دو کمرے ایک سو تیس جوان کبوتروں کے، ایک کمرہ دو سو بچوں کا جو اسی سال پیدا ہوئے ہوں، ایک جنوب رو شفاخانہ (infirmary) اور ایک دار التجربہ (Laboratory) درکار ہوتا ہے۔ ان خانوں میں رکھنے کے لیے کبوتر ان بچوں میں سے انتخاب کیے جاتے ہیں جن کی عمر ابھی ۴ ہفتہ ہی کی ہوتی ہے اور جو ابھی تک اپنے ان پیدائشی خانوں سے نہیں نکلے ہوتے جن میں وہ پیدا ہوئے ہیں۔ صحت اور غذا کی نگرانی کے خیال سے پہلے ۴ یا ۵ دن تک ان کی دیکھ بھال رہتی ہے۔ اس کے بعد خانے سے نکلنے اور ادھر ادھر اڑتے پھرنے میں اس طرح حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ بغیر ڈرائے ہوئے (تاکہ وہ اپنے داخلے کا دروازہ پہچان سکیں) نکل بھاگنے کا انہیں موقع دیا جاتا ہے۔ یہ تربیت روز تین بجے دن کو کی جاتی ہے۔ جب اس نوآبادی میں جوان کبوتر ملا دیے جاتے ہیں تو یہ مشق بہت دیر تک جاری رہتی ہے۔ تازہ وارد کبوتر پہلے تو ایک معتدبہ زمانے تک علیحدہ بند رہتے ہیں۔ اس کے بعد پرانے رہنے والوں کے ساتھ ملا دیے جاتے ہیں۔ آخر میں ان کی اگلی پانچ پانچ یا چار چار کلیاں دو دو انچ کے قریب کتر دی جاتی ہیں تاکہ موسم بھر اڑ نہ سکیں۔ جب جھاڑنے کا زمانہ آتا ہے تو ان کتری ہوئی کلیوں کی جگہ پوری پوری نئی کلیاں نکل آتی ہیں۔ قابل خدمت ٹکڑیوں میں (ٹکڑیاں فوجی اصطلاح میں کور Corps کہلاتی ہیں) ماہ مئی کے قریب دو برس سے لے کر آٹھ برس تک کے ۱۰۰ کبوتر ہوتے ہیں۔ ان میں اکتوبر تک ۶ محفوظ کبوتر اور ۱۸ مہینے کے ایسے ۲۳ پٹھے نوجوان بڑھا دیے جاتے ہیں جو تعلیمی معرکوں میں حصہ لے چکے ہیں۔ کھانے کے لیے سیم، مٹر اور مسور کا اکرا دیا جاتا ہے جو برابر سال بھر تک جمع ہوتا رہتا ہے۔ اکرے کی مقدار فی کبوتر تقریباً ڈیڑھ اونس ہوتی ہے جو تین وقتوں میں یعنی صبح، دوپہر اور ۳ بجے دن کو دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مٹی، چونا، دریا کی عمدہ بالو، انڈے کے چھلکے اور گھونگے بھی ہم وزن پسے ہوئے ملتے ہیں۔ یہ مرکب جسے نمک آمیز زمین (Salted Earth) کہتے ہیں، ہمیشہ ان کے پنجروں میں پڑا رہتا ہے۔ بہار کے زمانے میں اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ دو ہلکے یا دو بہت ہلکے رنگ کے کبوتروں میں یا نہایت ہی قریبی رشتہ دار کبوتروں میں، یا ایک دوسرے سے بے حد ملتے ہوئے کبوتروں میں جوڑا نہ لگنے پائے۔ جوڑا صرف انہی کبوتروں میں قائم کرنا چاہیے جن کی آنکھوں اور پروں کے رنگ مختلف ہوں۔ چھوٹے بڑے، جوان بوڑھے، باہم مانوس اور غیر مانوس کبوتروں میں اوٹ ضرور بنا دینی چاہیے۔ جب چند دنوں تک ایک ساتھ علیحدہ بند رہنے سے جوڑا لگ جائے تو پھر انہیں کمرہ میں آزادی سے پھرنے دینا چاہیے۔ جوڑا لگنے کے بعد سے۴۰ دن کے اندر مادہ انڈے دیتی ہے اور اس کے بعد ۱۷ دن تک سیکتی ہے۔ جب بچے ۴ یا ۵ ہفتے کے ہو جاتے ہیں اور دانہ چگنے لگتے ہیں تو ماں باپ سے علیحدہ کر کے ایک ایسے جنوب رویہ کمرہ میں رکھ دیے جاتے ہیں جس میں زائد سے زائد دھوپ آتی ہو۔ کسی دوسری جھولی کے یا موسم خزاں کے انڈے نہیں رکھے جاتے۔ کیونکہ ان کے بچے موٹے ہوتے ہیں اور بے قاعدہ پر جھاڑنے لگتے ہیں۔
(۲)
عہد قدیم کی تار برقی اور طیارات! نامہ بر کبوتروں کی فوجی تربیت کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ پہلے انہیں کبوترخانوں کے گرد و پیش کا وے دیے جاتے ہیں۔ ہر کبوتر سے یہ چاہا جاتا ہے کہ وہ ہر روز ۵ گھنٹے دن بھر میں دوبار اڑیں۔ ان آزمائشی لڑائیوں کی نگرانی نہایت توجہ سے کی جاتی ہے۔ پنجروں کی کھڑکیاں جب کھولی جاتی ہے تو سپاہی مستعد رہتے ہیں اور ان کبوتروں کو ڈھابلیوں کی چھت پر بیٹھنے نہیں دیتے۔ جو چندکبوتر پاس کی چھتوں پر بیٹھ کے اپنے رفقا کے سامنے نافرمانی کی بری مثال پیش کرتے ہیں، انہیں بلا تکلف فوراً گولی سے مار دیا جاتا ہے۔ اعلیٰ درجہ کے تربیت یافتہ کبوتر غول باندھ کے اڑتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ کبھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے پاتے۔ کورے پٹھے پہلے چند منٹ اڑتے ہیں، پھر بتدریح بڑھتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ تین مہینہ کی عمر میں گھنٹے گھنٹے بھر تک اڑنے لگتے ہیں۔ ایک طرح کی نقل و حرکت کے لیے ہمیشہ ایک ہی قسم کے اشارے کیے جاتے ہیں تاکہ کبوتر سمجھ سکیں کہ ان سے کیا کہا جا رہا ہے؟ کبوتروں کو پنجروں سے نکالنے کے لیے چیخیں، تالیاں اور کمروں کی درمیانی اوٹیں کھڑکھڑائی جاتی ہیں۔ واپس بلانے کے لیے کونڈوں میں پانی بھرنے اور زمین پردانہ ڈالنے کے بعد سیٹی بجائی جاتی ہے۔ نامہ بری کی مشق پرواز کے ساتھ ساتھ نامہ بری کی مشق بھی شروع کرا دی جاتی ہے۔ مسافت کی مقدار بتدریج بڑھتی رہتی ہے۔ فراہمی افواج کی حالت میں کبوتر کسی ایسے مقام پر رکھے جاتے ہیں جس میں اور فوج میں حملے کے وقت سلسلہ نامہ و پیام ضرور رہنا چاہیے۔ جو مقامات ایسے ہیں کہ بعض ذرائع مراسلت کی بربادی کے بعد کبوتروں کو وہاں رکھا جا سکتا ہے، ان کے متعلق سلسلۂ تعلیم کا جاری رکھنا ایک منطقی نتیجہ ہے، مگر اس کی قسمت میں پابندی نہیں۔ کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ کبوتر ڈھابلیوں کے ہر طرف آزمائے جاتے ہیں۔ بارش، کہر اور برف کے زمانے میں اڑانے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ جاڑے کے زمانے کو بالکل غیر مناسب سمجھا جتا ہے۔ فروری، مارچ اور اپریل کے مہینے پٹھوں کی نگرانی و برداخت کے لیے وقف ہوتے ہیں۔ عمر کے لحاظ سے کبوتروں کے دو درجے ہوتے ہیں۔ پہلے درجے کے کبوتر یا تمام افواج کی کور جس کی عمر ۱۸ مہینے سے لے کر ۸ برس تک ہوتی ہے، روزانہ اپنی ڈھابلی سے اڑ کے وہاں تک جاتے ہیں، جہاں وہ جنگ کے زمانے میں رکھے جائیں گے۔ یہ یا تو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں اڑتے ہیں یا کبھی ایک دم سے چھوڑ دیے جاتے ہیں، مگر بہر صورت ان میں سے ہر ایک کے کاوں کا خیال رکھا جاتا ہے تاکہ ہر کبوتر کی مشق اچھی طرح ہو جائے۔ بعض کبوتر عرصہ تک فوجوں کی اجتماع گاہوں میں بند رہتے ہیں۔ نیز ایک زمانے تک کسی خاص راہ پر باقاعدہ ہر روز اڑائے جاتے ہیں۔ مسافت کی مقدار پہلے دن ۲۰ کلو میٹر (ساڑھے بارہ میل) ہوتی ہے۔ تیسرے دن ۳۰ کلو میٹر، چھڈے دن۵۰ کلو میٹر۔ بیسویں دن ۱۳۰ کلومیٹر، ستائیسویں دن ۲۱۰ کلو میٹر اور چونتیسویں دن ۳۰۰ کلو میٹر کر دی جاتی ہے۔ ایک سال کی عمر کے پٹھوں کو بھی چھ ہفتے میں قریباً یہی مشق کرائی جاتی ہے۔ ڈھابلی کے آس پاس چند ابتدائی کاؤں کے بعد اولاً۱۰ کلو میٹر تک جاتے ہیں، اس کے بعد مسافت بتدریج بڑھتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ چھٹے ہفتہ کے آخر میں۲۰۰ کلو میٹر پورے ہو جاتے ہیں۔ پرواز کی مشق خشکی یا دریا میں جس پر کبوتر خانوں کی مقامی حالت اجازت دے، کرائی جاتی ہے۔ دھوپ کی گرمی کے خیال سے کبوتر بہت ہی تڑکے چھوڑے جاتے ہیں۔ موسم سرما میں شرح پرواز۸۰ سے لے کے۹۰ میٹر (ڈیڑھ میل) فی منٹ ہوتی ہے۔ ان مشقوں کے نتائج، گم شدہ کبوتر، دیگر سانحات، یہ سب چیزیں قلم بند ہوتی ہیں۔ چونکہ ان مشقوں کا مقصد کبوتروں کو باقاعدہ نامہ بری کی تعلیم دینا ہے اس لیے ان کے ساتھ ایسے خطوط بھی کر دیے جاتے ہیں جو خاص طور پر اسی غرض سے ہلکے اور محفوظ بنائے جاتے ہیں تاکہ بحفاظت و سہولت جا سکیں۔ مراسلات مراسلات یا تو تحریری ہوتی ہیں یا عکسی۔ اول الذکر نہایت باریک کاغذ پر ہوتے ہیں جوتین سے ساڑھے چار انچ تک ہوتا ہے۔ کاغذ کو بیچ سے موڑ کے پٹی کی طرح لپیٹ دیتے ہیں۔ لپٹنے کے بعد اس کی ضخامت کوئی ڈیڑھ انچ ہوتی ہے اور ایک سرے کی طرف گاؤ دم ہوتی چلی جاتی ہے۔
عکسی مراسلات ۱۴x۱۱انچ کی قلمی تحریروں سے۲؍۱x۲ کی جھلی پر لے لی جاتی ہیں۔ عکسی مراسلات جب پہنچتی ہیں تو اس جھلی کو ایک شیشہ کی پلیٹ پر منڈھ کے خوردبین (Magnifying Glass) سے یا طلسمی لالٹین کے ذریعہ اس کا پرتو ڈال کے پڑھتے ہیں۔ مشقی مراسلات میں یہ فرمائش ہوتی ہے کہ اس کبوتر کے پکڑنے کی اطلاع فوجی حکام کو دے دی جائے۔ اس کے علاوہ اس کبوتر کی منزل مقصود، جتنے کبوتر چھوڑے گئے ہیں ان کی تعداد، ان کے سلسلہ وار نمبر، نیز علم البحر کے متعلق چند علمی نوٹ درج کیے جاتے ہیں۔ مراسلات دو قسم کے چونگوں میں بھیجے جاتے ہیں۔ ایک قسم کا چونگا قاز کے پروں کا ہوتا ہے جس کا طول ڈیڑھ انچ اور قطر آدھا انچ ہوتا ہے۔ مراسلات روانہ کرنے والا اپنے بائیں ہاتھ سے کبوتر کو پکڑ کے اس کے سینے کو اپنے سینے سے لگا دیتا ہے اور اس کی دم کے درمیانی پروں میں ایک کو علیحدہ کر کے اس میں قاز کا پر ڈال دیتا ہے اور بقیہ پر کے دونوں طرف کے ریشوں کو اس طرح دبا دیتا ہے کہ جب مراسلت نکال لی جاتی ہے تو پھر اپنی اصلی حالت میں آجاتے ہیں۔ اس کے بعد اس پر کی ڈنڈی کے اندر جو خول ہوتا ہے اس میں مراسلت ڈال کے دیا سلائی کے تنکے سے بند کر دی جاتی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ الیومینیم کا ایک چونگا کبوتر کی ٹانگ میں باندھ دیتے ہیں اور مراسلات ایک دوسرے چھوٹے چونگے میں رکھ کے اس بڑے چونگے کے اندر ڈال دیتے ہیں۔ ہر فوجی نامہ بر کبوتر پر بعض خاص نشانات ہوتے ہیں جن سے وہ فوراً پہچان لیا جاتا ہے۔ بائیں پیر میں الیومینیم کا ایک حلقہ ہوتا ہے، جس پر تاریخ، کبوتر خانے کا پتہ، اور نمبر شمار منقش ہوتا ہے۔ یہی نقوش مع حرف ’’ن‘‘ یا ’’م‘‘ کے بغرض اظہار جنس اس کے بازو پر بھی چھپے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اجتماع گاہ افواج اور کبوتر کی جنس کا علم اس رنگین مصنوعی ہاتھی دانت (Celluloid) کے حلقہ سے بھی ہو جاتا ہے، جو کبوتر کے داہنے پیر میں ہوتا ہے۔ یہ حلقے بٹی رسی کی طرح بنائے جاتے ہیں اور کئی تاروں کے ان میں بل دیے جاتے ہیں۔ ڈھائی بل نر کی اور ڈیڑھ بل مادہ کی علامت قرار دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ سیاہ، سفید، نیلا، سرخ، زرد، سبز، بنفشی کے سات طرح کے رنگ لگے ہوتے ہیں، جن سے مختلف اطراف کی علامتوں کا کام لیا جاتا ہے۔ اساب و وسائل طریق تربیت کے اس مختصر خاکے کی تکمیل کے لیے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان مادی سامانوں کو بھی بیان کردیا جائے جو فرانس کے فوجی کبوتروں کی تربیت میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس میں نامہ بری کا سامان مع گاہکوں کے سامان کے شامل ہے۔ چونکہ کبوتروں کو صرف چند مقررہ گھنٹوں ہی میں خانوں سے نکالا جاتا ہے۔ اس لیے ہر حصہ (کمپارٹمنٹ) کے دروازے پر خاص داخلہ کے پنجرے رکھے رہتےہیں۔ یہ پنجرے اس طرح کے بنے ہوتے ہیں کہ کبوتر اندر جا تو آسانی سے سکتا ہے مگر نکل نہیں سکتا۔ پنجرے عموما ۲ انچ اونچے، ۲۳ انچ لمبے، ۲۸ انچ گہرے ہوتے ہیں۔ ان کے پہلو آہنی تیلیوں کے ہوتے ہیں جن میں ڈیڑھ ڈیڑھ انچ باہم فصل ہوتا ہے۔ اوپر آہنی جال ہوتا ہے جس کا ہر حلقہ ۵۔۴ انچ کا ہوتا ہے۔ یہ گنجائش ایسی ہے کہ اندر جانے کے لیے تو کافی ہے مگر باہر نکلنے کے لیے بالکل ناکافی ہے۔ سامنے کا بالائی حصہ بالکل دونوں پہلوؤں کی طرح ہوتا ہے مگر زیریں حصہ بدنما تاروں کے ایک متحرک چوکھٹے سے بند کر دیا جاتا ہے۔ یہ چوکٹھا ایک قلابہ میں جھولتا رہتا ہے جواس چوکٹھے کی بالائی سلاخ میں جڑا ہوتا ہے اور زیریں سلاخ اس طرح بنی ہوتی ہے کہ اس بدنما تاروں کے چوکٹھے کو اندر جانے دیتی ہے مگر باہر آنے نہیں دیتی۔ جب کبوتر واپس آتے ہیں تو پنجرے کے سامنے والے تختے پر بیٹھ کے اس چوکٹھے کو دھکیلتے ہوئے اندرچلے جاتے ہیں۔ جب نکلنا ہوتا ہے تو دور سے کھڑکی اٹھا دیتے ہیں۔ وہ تختہ جس پر کبوتر آکے بیٹھتے ہیں، اس لیے لمبا بنایا گیا ہے تاکہ بچوں کو اپنے خانے کا راستہ ملنے میں سہولت ہو۔ وہ آشیانے جن میں بیٹھ کے مادہ انڈے سیتی ہے، بالائی خانوں میں بنائے جاتے ہیں۔ ہر خانے میں دو آشیانے ہوتے ہیں کیونکہ پہلی جھول کے بچوں کے نکلنے کے بعد سے تین ہفتے کے اندر (یعنی قبل اس کہ بچے خود دانا چننے کے قابل ہو جائیں) جوڑے دوسرے جھول کے انڈے دیتے ہیں۔ ان خانوں کا بالائی حصہ اس طرح بنایا جاتا ہے کہ کبوتروں کے لیے ایک روش سی نکل آتی ہے۔ سامنے کا حصہ لڑی کی ہلکی جالی سے بند ہوتا ہے جو آشیانے کی صفائی کے وقت بہ آسانی ہٹا لی جاتی ہے۔ کبوتروں کو ایک مقام سے دوسرے مقام پر موٹی موٹی سلاخوں کے پنجروں میں لے جاتے ہیں۔ جب اڑنے کے لیے چھوڑنا ہوتا ہے تو اس چور دروازے کو کھول دیتے ہیں جو پنجرے کے اوپر ہوتا ہے۔ یہ پنجرے تین مختلف پیمانوں کے ہوتے ہیں۔ جن میں علی الترتیب ۲۵ سے۳۰، ۱۲سے ۱۵ اور ۴ سے۶ کبوتر تک آ سکتے ہیں۔ پنجرے یا تو ریل گاڑیوں میں جاتے ہیں یا خچر پر رکھ کر لے جاتے ہیں۔ فوجی حکام جہاں تک ہوسکتا ہے، نامہ بر کبوتروں کی پرورش کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں۔ فرانس کے ملکی (سول) افسروں میں بہت سے لوگوں کے پاس کبوترخانے ہیں جن میں بہت سے تربیت یافتہ نامہ بر کبوتر ہیں، اور جو براہ راست صیغۂ جنگ کی نگرانی میں داخل ہیں۔ فرانس کے نامہ بر کبوتروں کو سرکاری طور پر تعلیم دینے کی تاریخ سنہ ۱۸۷۰ء کی جنگ جرمنی و فرانس سے شروع ہوتی ہے۔ گو اس وقت ان مسکین پرندوں کی تربیت بہت ہی معمولی ہوئی تھی، مگر انہوں نے ایسے عجیب و غریب کام انجام دیے کہ اب آئندہ جنگ میں ان کی اعانت پر پورا پورا اعتماد کیا جاتا ہے۔ نامہ بر کبوتر اور طیاراتغالباً عنقریب کبوتر ایروپلین یعنی ہوائی جہازوں پر بھی جایا کریں گے۔ اگرچہ طیارچیوں کو ان سے طبیعی نفرت ہے کیونکہ وہ کبوتروں کو اپنا ایک خطرناک دشمن سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایک تیز رو ایروپلین کو پھڑپھڑانے والے کبوتروں سے سخت صدمہ پہنچتا ہے اور پرندے جہاز کے پروپلر Propeller) ہوائی جہاز کے سامنے کا ایک آلہ) کو مس کرنا تو اور بھی خطرناک ہوگا۔ ان امور کے انسداد کے لیے یہ تجویز کیا گیا ہے کہ کبوتروں کو چھوڑتے وقت ان کا سر نیچے کی طرف کرکے کسی اتنی لمبی نالی میں سے چھوڑا جائے کہ جب تک یہ حیرت زدہ پرندہ سنبھل کر اڑنا شروع کرے اس وقت تک طیارہ ان سے بہت دور ہو جائے۔ اس تجویز کا آئندہ موسم سرما میں تجربہ کیا جائےگا۔ یہاں تک سائنٹفک امریکن کے مقالہ نگار کے مضمون کا ترجمہ تھا۔ بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہوگی کہ اس وقت تک یورپ کی ایک بڑی حکومت نامہ بر کبوتروں کی تعلیم و تربیت کا ایک ایسا باقاعدہ جنگی صیغہ رکھتی ہے اور جو فرانس اس عہد دخان و برق میں اپنے ہوائی طیارات سے شہرت حاصل کر چکا ہے۔ وہ ان قدرتی اڑنے والے نامہ بروں کی طرف سے بھی غافل نہیں ہے اور بہتر سے بہتر ہوائی جہاز بھی اسے کبوتروں سے بے نیاز نہ کر سکے ہیں۔ اس کے بعد ہم نامہ بر کبوتروں کی تاریخ گزشتہ کی طرف متوجہ ہوں گے اور علی الخصوص اسلامی عہد کی ترقیات و انتظامات کو تذکرہ کریں گے، کیونکہ یہ فن بھی مسلمانوں کے عہد عروج کا کچھ کم ممنون نہیں ہے۔