نام خوشبو تھا سراپا بھی غزل جیسا تھا

نام خوشبو تھا سراپا بھی غزل جیسا تھا
چاند سے چہرے پہ پردہ بھی غزل جیسا تھا


سارے الفاظ غزل جیسے تھے گفتار کے وقت
رنگ اظہار تمنا بھی غزل جیسا تھا


پھول ہی پھول تھے کلیاں تھیں حسیں گلیاں تھیں
آپ کے گھر کا وہ رستہ بھی غزل جیسا تھا


اس کی آنکھیں بھی حسیں آنکھ میں آنسو بھی حسیں
غم میں ڈوبا ہوا چہرہ بھی غزل جیسا تھا


وہ جوانی وہ محبت وہ شرارت کا نشہ
وہ مری عمر کا حصہ بھی غزل جیسا تھا


فاصلے تھے نہ جدائی تھی نہ تنہائی تھی
تیری قربت کا وہ لمحہ بھی غزل جیسا تھا


وہ نہ میرا نہ میں اس کا تھا مگر اے داناؔ
دھندلا دھندلا سا وہ رشتہ بھی غزل جیسا تھا