نالوں سے اگر میں نے کبھی کام لیا ہے
نالوں سے اگر میں نے کبھی کام لیا ہے
خود ہی اثر نالہ سے دل تھام لیا ہے
آزادئ اندوہ فزا سے ہے رہائی
اب میں نے کچھ آرام تہ دام لیا ہے
اٹھتی تھیں امنگیں انہیں بڑھنے نہ دیا پھر
میں نے دل ناکام سے اک کام لیا ہے
جز مشغلۂ نالہ و فریاد نہ تھا کچھ
جو کام کہ دل سے سحر و شام لیا ہے
خود پوچھ لو تم اپنی نگاہوں سے وہ کیا تھا
جو تم نے دیا میں نے وہ پیغام لیا ہے
تھا تیرا اشارا کہ نہ تھا میں نے دیا دل
اور اپنے ہی سر جرم کا الزام لیا ہے
غم کیسے غلط کرتے جدائی میں تری ہم
ڈھونڈا ہے تجھے ہاتھ میں جب جام لیا ہے
آرام کے اب نام سے میں ڈرنے لگا ہوں
تکلیف اٹھائی ہے جب آرام لیا ہے
معلوم نہیں خوب ہے جو واقف فن ہیں
وحشتؔ نے محاکات سے کیا کام لیا ہے