نادان
کتنا نادان ہوں ابھی تک میں
جانتا ہوں کے ایک دن تم کو
دور ہونا ہے میری دنیا سے
چاہے جاتا ہوں تم کو میں پھر بھی
اور یادوں کو اپنے سینے میں
یوں چھپائے ہوئے ہوں دنیا سے
جیسے موتی کو سیپی رکھتی ہے
کاش تم جانتیں تمہارے لئے
کتنے ارمان ہیں میرے دل میں
ایک ارمان تم کو پانے کا
ایک صدمہ تمہیں گنوانے کا
ایک خواہش کہ تم بنو میری
ایک خواہش کہ تم قریب رہو
ایک حسرت کہ لب تمہارے کبھی
نام میرا بھی لیں محبت سے
ایک خدشہ کہ تم کو کھونے پر
دل مرا بھی کہیں نہ کھو جائے
اپنی بربادیوں کا خوف نہیں
خوف اتنا ہے کہ کہیں تجھ کو
پائے جانے کی میری یہ کوشش
کر نہ جائے کہیں تجھے رسوا
کتنا نادان ہوں کہ میں پھر بھی
چاہے جاتا ہوں چاہے جاتا ہوں