ناتوانی میں پلک کو بھی ہلایا نہ گیا

ناتوانی میں پلک کو بھی ہلایا نہ گیا
دیکھ کے ان کو اشارے سے بلایا نہ گیا


سخت تر سنگ سے بھی دل ہے انہوں کا شاید
نقش جس پر کسی عنوان بٹھایا نہ گیا


گلشن خلد میں ہر چند کہ دل بہلایا
کوچۂ یار مگر دل سے بھلایا نہ گیا


شکن زلف سے دل صاف نظر آتا ہے
اس اندھیرے میں تعجب ہے چھپایا نہ گیا


دیکھ کر کل وہ مرا حال پریشاں عارفؔ
ایسا گھبرائے کہ آنکھوں کو چرایا نہ گیا