نہ وہ بلبل میں رکھی ہے نہ پروانے میں رکھی ہے
نہ وہ بلبل میں رکھی ہے نہ پروانے میں رکھی ہے
جو اس نے آتش عشق اپنے دیوانے میں رکھی ہے
مرے پر اس کو سو درے نہ کہئے پھر تو کیا کہئے
ترے عاشق کی میت ڈاکٹر خانے میں رکھی ہے
حرام اس کی ہے اک منزل حلال اس کی ہے اک منزل
نہ جانے کیا صفت انگور کے دانے میں رکھی ہے
تجاہل دیکھیے واعظ کا فرماتے ہیں رندوں سے
یہ کیا شے سامنے ساقی کے پیمانے میں رکھی ہے
ذرا دیکھو تو اس پیر مغاں کی دور بینی کو
منگا کر شیخ کی تصویر میخانے میں رکھی ہے
لگی کچھ ہونس ایسی شیخ بیچارے کی صحت پر
کہ اب تو آئے دن ڈولی دوا خانے میں رکھی ہے
محلہ خوش نہ ان کے باپ ماں خوش اور نہ درباں خوش
کسی دن مار پیٹ اب ان کے گھر جانے میں رکھی ہے
نہ بالوں میں سیاہی ہے نہ منہ میں دانت واعظ کے
کسر اب کون سی ملک عدم جانے میں رکھی ہے