نہ رہا شکوۂ جفا نہ رہا

نہ رہا شکوۂ جفا نہ رہا
ہو کے دشمن بھی آشنا نہ رہا


بے وفا جان و مال بے صرفہ
کیا رہا جب کہ دل ربا نہ رہا


سبھی اغیار ہیں سبھی عاشق
اعتماد اس کا ایک جا نہ رہا


خاک تھا جس چمن کی رنگ ارم
پتے پتے کا واں پتا نہ رہا


وصل میں کیا وصال مشکل تھا
یاد پر روز ہجر کا نہ رہا


خط مرا واں گیا گیا نہ گیا
سر قاصد رہا رہا نہ رہا


دل میں رہتا ہے کون غم کے سوا
کوئی اس گھر میں دوسرا نہ رہا


غیر اور شکوۂ جفا تم سے
ہائے میں قابل وفا نہ رہا


کیا ہوا کیوں قلقؔ کو روتے ہو
کوئی اس دہر میں سدا نہ رہا