نہ پوچھو مرے دل سے کیا چاہتا ہوں
نہ پوچھو مرے دل سے کیا چاہتا ہوں
تمہاری وفا بے وفا چاہتا ہوں
دھڑکتا ہے دل اور جگر بھی ہے مضطر
ترا حسن میں دیکھنا چاہتا ہوں
میں درد محبت کو دل میں چھپا کر
پریشاں ہوں اس کی دوا چاہتا ہوں
بہت زخم گہرا ہوا جا رہا ہے
نگاہوں سے تیری شفا چاہتا ہوں
تحمل سے باہر ہے یہ درد میرا
بزرگوں کی اب میں دعا چاہتا ہوں
جھلک تو دکھا آخر اے وائے قسمت
ترا جلوہ میں برملا چاہتا ہوں
ترے سامنے دل کی سب بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
مرے دل میں جس کا بھی ہے عشق احقرؔ
اسی پر میں قرباں ہوا چاہتا ہوں