نہ پوچھ دل کے خرابے سے اور کیا نکلا

نہ پوچھ دل کے خرابے سے اور کیا نکلا
بڑی تلاش کے بعد ایک نقش پا نکلا


رکے تو چاند بہت دور تھا تصور سے
چلے تو چار ہی قدموں کا فاصلا نکلا


خرد کے پھول تو مرجھا گئے بہاروں میں
جنوں کا زخم خزاں میں ہرا بھرا نکلا


سیاہ رات میں لو دے اٹھے لہو کے چراغ
رباب عشق سے وہ شعلۂ نوا نکلا


سفر شباب کا حد درجہ مختصر تھا مگر
بہت طویل سرابوں کا سلسلہ نکلا


نگاہ ناز میں مستی بھی ہے تقدس بھی
شراب خانے کا مندر سے رابطہ نکلا


وصال یار تو قسمت کی بات ہے بے شک
خیال یار بھی ہم سے بہت خفا نکلا


نگار شعر نے سولہ سنگار جس میں کئے
وہ آئنہ مرے اشکوں کا آئینا نکلا


کمال چشم نظارہ تو دیکھیے اے پریمؔ
بیاض جسم کا ہر راز خوش نما نکلا